مذہبی خبریں

   

چنچل گوڑہ جونیر کالج گراونڈ پر معراج النبی ؐکانفرنس
بیرونی مہمان مقررین علامہ احمد رضا منظری ، خطیب ِ ماریشیس علامہ غفران رضا قادری کی شرکت کی توثیق
حیدرآباد ۔ 31 ۔ جنوری : ( راست ) : محمد شاہد اقبال قادری (صدر رحمت عالم کمیٹی) ـ و ڈاکٹر عظمت رسول کی اطلاع کے بموجب کل ہند مرکزی رحمت عالم کمیٹی کی معراج النبی ﷺ کانفرنس 7 فبروری کو بعد نمازِ عشاء گورنمنٹ جونیر کالج گراؤنڈ چنچل گوڑہ پر عمل میں آئے گی ۔ کانفرنس کی قیادت مولانا سید محمد رفیع الدین حسینی رضوی قادری شرفی ، صدارت مولانا سید خلیل اللہ شاہ بابا قادری قدرتی محبوبی ، سرپرستی مولانا سید محمد شاہ قادری ملتانی ، نگرانی جناب محمد شوکت علی صوفی کرینگے ۔ مہمانان ِ خصوصی کی حیثیت سے مولانا حافظ سید شاہ محمد حسینی پیر الحسینی الرضوی القادری الطاہری ، مولانا محمد اخلاق اشرفی ، حکیم ایم اے ساجد قادری ملتانی ، جناب افتخار شریف (حال مقیم امریکہ )، ڈاکٹر حیدر یمنی ، ڈاکٹر مجیب شاہد ، ڈاکٹر محمد عظیم برکاتی (ایڈوکیٹ) ، ڈاکٹر خالد غلام محی الدین قادری ، ڈاکٹر سید قمر قادری ، ڈاکٹر غوث قادری ،جناب سید اعزاز محمد قادری شرکت کرینگے ۔ بیرونی مہمان مقرر عالمی شہرت یافتہ ممتاز عالم دین علامہ مولانا محمد احمد رضا منظری (بریلی شریف ، اترپردیش) کے علاوہ دوسرے مہمان مقرر خطیب ِ ماریشیس ، العلامہ مولانا غفران رضا قادری ( ناظم اعلیٰ جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ ماریشیس ) نے شرکت کی توثیق کردی ہے ۔ کانفرنس کا آغاز حافظ و قاری کلیم الدین حسان کی قرات سے ہوگا ۔ بارگاہِ رسالتمآب ﷺ میں معروف ثناء خوانِ رسول ہدیہ نعت پیش کرینگے ۔ صدر استقبالیہ جناب مرزا نثار احمد بیگ نظامی ( ایڈوکیٹ ) خطبہ استقبالیہ پیش کرینگے ۔ نیز مقامی علماء کرام میں العلامہ ڈاکٹر سید شاہ عبدالمعز حسینی رضوی قادری شرفی ، مولانا حافظ و قاری محمد اقبال احمد رضوی القادری ، مولانا ڈاکٹر محمد عبدالنعیم قادری نظامی ( نائب صدر رحمت عالم کمیٹی ) کے بھی خطابات ہونگے ۔ ۔

دعاوں کی قبولیت مصلحت خداوندی پر منحصر
حضرت پیر سید سلمان الگیلانی کا خطاب
حیدرآباد ۔ 31 ۔ جنوری : ( پریس نوٹ ) : الگیلانی عالمی سوسائٹی حیدرآباد کے زیر اہتمام جمال نواب کی قیام گاہ واقع نامپلی پر شہزادہ حضرت غوث الاعظم ؒ حضرت پیر سید سلمان الگیلانی نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریم ؐ جنت میں جانے کا وسیلہ ہیں اور تمام اجماع امت کا اس پر اتفاق ہے ۔ کسی بزرگان دین کا وسیلہ بنانا دراصل اُن کی دین سے قربت کے سبب ہے نہ کہ ان سے راست طلب کرنا ہے کیوں کہ بزرگان دین کو حق تعالیٰ نے خاص مقام و مرتبہ عطا کیا ہے اور تمام بزرگان دین نے اپنی ساری زندگی حق تعالیٰ کی عبادت و احکام شریعت پر عمل کرتے ہوئے گذاری ہے ۔ قرآن پاک میں اولیاء اللہ کے متعلق حق تعالیٰ کا ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اللہ کے ولی ہیں انہیں کچھ خوف اور پریشانی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور دعاؤں کا مانگنا ہمیں قرآن بتلاتا ہے اور دعائیں مانگنے پر حق تعالیٰ عطا فرماتا ہے ۔ کبھی بروقت تو کبھی تاخیر سے عطا کرتا ہے یا پھر بجائے دنیا کے آخرت میں عطا کرتا ہے کیوں کہ یہ سب مصلحت خداوندی کے سبب سے ہے ہم سب کچھ نہیں جانتے ہیں مگر ہمارا رب ہر ایک بات ظاہری و پوشیدہ سے واقف ہے اسی لیے وہ دعاؤں کی قبولیت و عطا اپنی شان کریمی اور مصلحت کے مطابق کرتا ہے ۔ اولیاء اللہ نے اپنی ساری زندگی راہ حق میں وقف کردی اور تمام عمر عبادات و دین کی تبلیغ فرمائی ۔ اولیاء اللہ سے نسبت اور وابستگی سے ہماری زندگیوں میں مثبت اسلامی انقلابی و عملی تبدیلیاں رونما ہوں گی جس سے ہماری دنیا و آخرت میں یقینا کامیابی و کامرانی ممکن ہے ۔ آخر میں حضرت نے عقیدت مندوں کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کیا اور خصوصی دعا کی ۔ اس موقع پر الگیلانی سوسائٹی کے اراکین واصف احمد علوی ، کے بی اقبال ، عدنان قادری کے علاوہ مریدین ، معتقدین و سامعین کی کثیر تعداد موجود رہی ۔۔

اسلامی تہذیب نے سماج میں مثبت قدروں کو فروغ دیا: ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد کا لکچر
حیدرآباد۔ 31 جنوری ( پریس نوٹ ) تاریخ کے مختلف ادوار میں روئے زمین پر کئی تہذبیں ابھرتی رہیں اور عروج کو پہنچ کر زوال کا شکار ہوگئیں۔ لیکن اسلامی تہذیب کا کمال ہے کہ اس نے انفرادیت کو باقی رکھ کر معاشرے پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ اسلامی تہذیب کی اعلیٰ قدروں نے سماجی زندگی میں وہ مثبت تبدیلیاں لائی کہ اس سے انفرادی معاملات میں غیر معمولی تبدیلی محسوس کی گئی اور اجتماعی نظام میں سدھار ہوا۔ عصری دور میں جہاں انسان مادیت کا خوگر ہو تا جا رہا ہے ۔ بدلتے دور میں انسانی معاشرہ میں عدل و انصاف، ہمدردی و ایثار، امانت و دیانت ، صبر و برداشت کے ساتھ اخوت کے جذبات کو فروغ دینے اسلامی اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، سابق اسوی ایٹ پروفیسر سیاسیات نے جامع مسجد عالیہ میں ’انسانی سماج پر اسلامی تہذیب کے اثرات ‘ کے عنوان پر لکچر دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا نے مغربی تہذیب کے کڑوے کسیلے پھل کھا کر اس کے مضر اثرات کا خمیازہ بھی بھگت لیا ۔ اس تہذیب نے انسانی معاشرہ کو تباہی و بربادی کے اُ س دہانے پر پہنچا دیا کہ آج پوری دنیا اضطراب اور بے چینی کے دور سے گزرہی ہے۔ مغربی تہذیب کی یلغار نے معاشرہ کی اعلیٰ قدروں کو تہس نہس کردیا ۔

مغربی تہذیب نے معاشرہ میں عریانیت اور فحاشیت کو پروان چڑھا کر انسان کو حرص وہوس کا جانور بنادیا۔ معاشرہ میں رشتوں کا تقدس بھی مغربی تہذیب کو قبول کرنے سے ختم ہو گیا۔ اسلامی تہذیب ایسے سماج کو تشکیل دیتی ہے جہاں لوگوں میں آپسی محبت اور احترام کا جذبہ عام ہو تا ہے۔ مغربی تہذیب کے زہریلے اثرات سے دنیا کو محفوظ رکھنے یہ ناگزیر ہے کہ انسانی سماج کو اسلامی تہذیب کی بنیادوں پر استوار کیا جائے تا کہ دنیا سے وہ ساری خباثتیں ختم ہوجائیں جو مغربی تہذیب کی وجہ سے دَر آئی ہیں۔ نشست کا آغاز حافظ تنویر عالم کی قرات کلام پاک سے ہوا۔ جناب انعام احمد نے مقرر کا تعارف کرایا۔ دعا پر محفل کا اختتام ہوا۔