مرکز کی نئی تعلیمی پالیسی کی مختلف تنظیموں کی جانب سے مذمت

   

نئی دہلی: ملک کے کئی تعلیمی تنظیموں نے 34 برس بعد وضع کردہ نئی تعلیمی پالیسی کو خانگیانے کے لئے راستہ ہموار کرنے والا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پالیسی سے گریڈیڈ خودمختاری کے نام پر تعلیمی اداروں کی حقیقی خودمختاری چھن جائے گی اور وہ بورڈ آف آپریشنز کے ذریعہ سے حکومت کے کنٹرول میں آجائے گی۔سینٹرل یونیورسٹی اساتذہ فیڈریشن ،دہلی یونیورسٹی ٹیچرز یونین، رائٹ ٹو ایجوکیشن فورم اور ایکشن فار اکیڈمک ڈیولپمنٹ نے کابینہ کی منظورہ نئی تعلیمی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ ان تنظیموں نے کہا ہے کہ ٹیچرز تنظیموں اور ماہرین تعلیم نے تبادلہ خیال کے دوران جس طرح کے اعتراض درج کرائے تھے اسے نظرانداز کرکے حکومت نے یہ پالیسی بنائی ہے اور اس طرح اس نے تبادلہ خیال کے نام پر صرف دکھاوا کیا ہے ۔فیڈکو کے صدر راجیو رے اور سکریٹری ڈی کے لابیال نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں داخلہ شرح پچاس فیصد کرنے کی بات کہی گئی ہے لیکن یہ نشانہ آن لائن اور ریموٹ تعلیم کے ذریعہ حاصل کیا جائے گا، اس سے تعلیم کے معیار کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے ۔ریلیز میں کہا گیا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی سے فیس میں اضافہ ہوگا اور اعلی تعلیم اور تعلیم کے شعبہ میں جمہوری حقوق کا گلا گھونٹا جائے گا۔