مریدوں پر نظر عنایت

   

مرسل : ابوزہیر نظامی

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا دستور تھا کہ جب بھی آپ کے کسی مرید کا انتقال ہوتا تو آپ بہ نفس نفیس قبرستان تشریف لے جاتے، اپنے مرید کی نماز جنازہ پڑھتے، اس کے حق میں دعائے مغفرت فرماتے اور اس کے عزیزوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے۔ مرید کو جب قبر میں دفن کردیا جاتا تو آپ کافی دیر تک قبر کے پاس بیٹھے رہتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرکے ایصال ثواب کرتے۔ایک مرتبہ آپ کے ایک مرید (جو آپ کے پڑوس میں رہتا تھا) کا انتقال ہو گیا۔ اس کے عزیزوں نے اسے غسل دیا، کفن پہنایا اور جنازہ تیار کرکے اجمیر شریف کے قبرستان میں لے گئے اور اپنے مرشد حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو اطلاع دی کہ ’’حضرت! آپ کے مرید کا جنازہ تیار ہے، تشریف لے چلیں اور نماز جنازہ پڑھائیں‘‘۔ نماز جنازہ کے بعد حضرت خواجہ غریب نواز کے اس مرید کو دفن کرکے لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوگئے۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سارے لوگ چلے گئے، لیکن حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس مرید کی قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے اور کافی دیر تک آپ تلاوت قرآن پاک اور اوراد و وظائف میں مشغول رہے۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی فرماتے ہیں کہ ’’اچانک میں نے دیکھا کہ حضرت غریب نواز کا چہرہ متغیر ہو گیا اور چہرے پر عجیب قسم کی کیفیت طاری ہو گئی۔ میں بڑا حیران ہوا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے چہرہ اپنی اصلی حالت میں آگیا۔ پھر آپ الحمد للّٰہ رب العالمین کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا ’’قطب الدین! پیری مریدی بھی عجیب چیز ہوتی ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’حضرت! آخر کیا بات ہوئی؟‘‘ تو حضرت غریب نواز نے فرمایا ’’جب لوگ میت کو دفن کرکے چلے گئے تو میں نے دیکھا کہ میرے مرید کی قبر میں عذاب کے فرشتے آگئے۔ انھوں نے میرے مرید کو عذاب دینا چاہا تو میں پریشان ہو گیا کہ میرے ہوتے ہوئے میرے مرید کو عذاب دیا جائے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسی وقت مرشد لاثانی حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ روحانی طورپر تشریف لائے اور انھوں نے عذاب دینے والے فرشتوں سے فرمایا کہ ’’اے فرشتو! یہ شخص میرے معین الدین کا مرید ہے، گویا یہ میرا مرید ہے، لہذا اس کو عذاب نہ دو‘‘۔ فرشتوں نے کہا ’’اے عثمان ہارونی! یہ شخص آپ کا مرید تو ہے، لیکن اس کے اعمال آپ جیسے نہیں ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور گنہگار بندہ ہے‘‘۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ’’اے فرشتو! یہ تو صحیح ہے کہ اس کے پاس کوئی نیک عمل نہیں ہے، لیکن اس نے اپنے آپ کو ہماری طرف منسوب کیا ہے۔ ماناکہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، مگر اللہ کے فضل سے ہمارے پاس تو اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے‘‘۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابھی فرشتوں اور حضرت پیر و مرشد کے درمیان یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ غیب سے ندا آئی کہ ’’اے فرشتو! میرے بندے کے ساتھ تکرار نہ کرو، میں نے خواجہ عثمان ہارونی کے طفیل میں معین الدین چشتی کے اس مرید کے گناہوں کو معاف کردیا‘‘۔ (معین الارواح )