مسجد میں غیر مسلم کا مال لگانا

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تعمیر و ترمیم مسجد و قبرستان اور حصار بندی قبرستان کے لئے غیر مسلم کے عطایا و مالی امداد شریک کرسکتے ہیں یا کیا ؟
جواب : غیر مسلم کا مال تعمیر و ترمیم مسجد میں صرف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ اس کو حصار قبرستان میں شریک کیا جاسکتا ہے۔ تفسیر احمدی کے ص ۴۵۳ میں ہے : آیۃ ’’ماکان للمشرکین أن یعمروا مسٰجد اﷲ‘‘ کی تفسیر میں ہے : فان أراد کافر أن یبنی مساجد أو یعمرھا یمنع منہ۔
عقیقہ میں بڑا جانور
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنے تین لڑکوں اور ایک لڑکی کے عقیقہ میں ایک فربہ بڑا جانور جسکی عمر پانچ سال سے زائد ہے اور جو تمام عیوب سے منزہ ہے، ذبح کرنا چاہتا ہے۔
ایسی صورت میں شرعاً یہ عمل درست ہے یا کیا؟ نیز ہر بچہ کی پیدائش کا ساتواں دن آنا کس حد تک ضروری ہے ؟
جواب : وجوب قربانی سے قبل عقیقہ واجب تھا۔ قربانی جب واجب ہوگئی تو عقیقہ مستحب و مباح ہوگیا۔ مؤطا امام محمد رحمہ اﷲ طبع مجتبائی ص ۲۸۶ باب العقیقہ میں ہے: قال محمد أما العقیقۃ فبلغنا انھا کانت فی الجاھلیۃ وقد فعلت فی ابتداء الاسلام ثم نسخ الأضحی کل ذبح کان قبلہ۔ پیدائش کے ساتویں دن نومولود کا نام رکھنا، سرمونڈھنا اور بال کے ہموزن سونا یا چاندی صدقہ دینا اور جانور ذبح کرنا مستحب ہے، اس جانور کیلئے وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کے ہیں۔ لہٰذا تین لڑکوں اور ایک لڑکی کیجانب سے ایک گائے ذبح کرنا تو درست ہے۔ ردالمحتار جلد ۵ ص۲۳۶ میں ہے : یستحب لمن ولد لہ ولد أن یسمیہ یوم أسبوعہ و یحلق رأسہ و یتصدق عند الأ ئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذھبا ثم یعق عند الحلق عقیقۃ اباحۃ علی ما فی الجامع المحبوبی أو تطوعاً علی ما شرح الطحاوی وھی شاۃ تصلح للأضحیۃ … شاتان عن الغلام و شاۃ عن الجاریۃ۔
صاحب ترتیب
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید ایک مسجد کا امام ہے کسی وجہ سے زید فجر کی نماز نہیں پڑھا اور قضاء بھی نہیں پڑھا تو زید ظہر کی امامت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر زید صاحب ترتیب ہو تو کیا حکم ہے؟ ۲۔ زید ایک مسجد میں تین نمازیں پڑھاتا ہے، اگر وہ کسی وجہ سے مسجد نہ جاسکے تو کوئی دوسرا شخص امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب : پانچوں فرض نمازوں میں باہم اور فرض و وتر میں ترتیب لازمی ہے۔ اگر کسی عاقل بالغ کی نماز قضاء ہوجائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اولاً قضاء پڑھے یہ حکم پانچ نمازوں تک ہے۔ اگر قضاء پڑھنا ہے یاد رکھتے ہوئے خلاف ترتیب پڑھا تو جائز نہیں۔ ہاں اگر وقت میں گنجائش نہ ہو تو جس قدر ادا و قضاء میں ترتیب ہوسکے کرلیں، باقی میں ترتیب نہیں۔ اگر قضاء یاد نہیں تھی ادا پڑھ لیا تو نماز درست ہوگئی اور ترتیب ساقط ہوجاتی ہے۔ ترتیب کے لئے مطلق وقت کی ضرورت ہے۔ نیز جب چھ نمازیں قضاء ہوجائیں اس وقت ترتیب ساقط ہوجاتی ہے۔ عالمگیری جلد اول باب قضاء الفوائت میں ہے : الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ مستحق کذا فی الکافی حتی لا یجوز اداء الوقتیۃ قبل قضاء الفائتۃ کذا فی محیط السرخسی و کذا بین الفروض والوتر … ثم الترتیب یسقط بالنسیان وبما ھو فی معنی النسیان کذا فی المضمرات … ویسقط الترتیب عند ضیق الوقت کذا فی محیط السرخسی … ویسقط الترتیب عند کثرۃ الفوائت وھو الصحیح ھکذا فی محیط السرخسی وحد الکثرۃ أن تصیر الفوائت ستا بخروج الصلاۃ السادسۃ۔پس صورت مسئول عنہا میں زید اگر صاحب ترتیب ہے اور اس کو یہ یاد تھا کہ فجر کی قضاء پڑھنا ہے تو وہ ظہر کی امامت قبل قضاء فجر نہیں کرسکتا۔ بصورت ثانی درست ہے۔ ۲۔ امام مقررہ مسجد میں موجود نہ ہو تو حاضرین کسی موزوں شخص کو امام بنا کر باجماعت نماز پڑھیں۔