موت کے معنی فنا کے نہیں منتقلی کے ہیں

   

عالم اجسام سے انسان کو موت کے ذریعہ عالم برزخ میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ برزخ کے معنی درمیان کے ہیں ، عالم برزخ کو برزخ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ عالم اجسام اور عالم آخرت کے درمیان ہے ، یہ عالم اجسام کی طرح کثیف نہیں بلکہ عالم ارواح کی طرح لطیف ہے ۔ لیکن یہاں روح ، عالم ارواح کی طرح مجرد نہیں ہوتی بلکہ جسم کے ساتھ ہوتی ہے جو اس کو عالم برزخ میں عطا کیا جاتا ہے ، لیکن یہ جسم مادی نہیں، غیرمادی یعنی لطیف ہوتا ہے اور ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ عالم اجسام میں تھا اس لیے اس جسم کو ’’جسم مثالی‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اس کی شکل و صورت اور ہیئت کذائیہ بالکل جسم مادی کی طرح ہوتی ہے ۔
عالم اجسام سے عالم برزخ میں منتقل ہونے کا جو طریقہ کار ہے وہ ’موت ‘ کہلاتا ہے ۔ موت کے معنی فنا ہوجانے یا ختم ہوجانے کے نہیں ہیں جیسا کہ جہلاء یا دہریے سمجھتے ہیں ۔ مسلمان کے نزدیک موت کے معنی فنا کے نہیں ، ’انتقال‘ کے ہیں یعنی انسان ایک عالم (عالم اجسام) سے دوسرے عالم ( عالم برزخ) میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ جب کسی کو کسے کے مرنے کی اطلاع دی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے فلاں شخص کا انتقال ہوگیا ، یہ نہیں کہا جاتا کہ فلاں شخص فنا ہوگیا۔ اس انتقال سے حیات ، انسانی کی نوعیت بدل جاتی ہے لیکن حیات کاتسلسل باقی رہتا ، حیات برابر باقی رہتی ہے ۔ حیات کاتسلسل نہ دنیا میں آنے سے ٹوٹتا ہے اور نہ دنیا سے جانے سے ٹوٹتا ہے ، حیات زندگی برابر باقی رہتی ہے ۔ موت ، رجوع الی اﷲ ہے ، یعنی بندہ اﷲ کی طرف لوٹ گیا ۔ اسی لئے کسی کے مرنے پر استرجاع یعنی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہنے کا حکم ہے۔ یعنی ہم اﷲ کے ہیں اور اﷲ کی طرف ہی پلٹ کر جانے والے ہیں۔ یہ پلٹنا فنا نہیں ہے نہ یہ اختتام حیات ہے صرف نوعیت حیات کی تبدیلی ہوتی ہے ۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : ’’موت مومن کے حق میں ایک نادر تحفہ اور ہدیہ ہے ‘‘۔ یہاں اس کو ، دلہن کی نیند سوجا کہہ کر سلادیا جاتا ہے جس طرح دلہن ہرفکر و غم سے آزاد ہوکر آسودگی کے ساتھ سوتی ہے اسی طرح مومن بھی سوتا ہے ۔ یہاں چین ہی چین آرام ہی آرام ہوتا ہے ، اسی لئے صالحین اور بزرگانِ دین کے یوم وفات کو عرس کہا جاتا ہے ۔ عرس میلے ٹھیلے یا کھیل تماشے کادن نہیں، اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے یوم وفات ، یوم عروس کی یاد کا دن ہے جس میں ان کو دلہن کی طرح آسودہ کرکے سلادیا گیاہے۔ موت ، فنا نہیں ، انتقال ہے ، مرگ بدن ہے ، مرگ جاں نہیں ۔ اقبالؔ نے کہا ہے :
یہ نکتہ سیکھا ہے میں نے ، بوالحسن سے
کہ جاں مرتی نہیں ، مرگ بدن سے
جسم مرگیا، اسی لئے وہ روح کے نکل جانے کے بعد سڑنا گلنا شروع ہوجاتا ہے اور اسی لیے دفن کرنے میں جلدی کرنے کا حکم ہے ۔ یہ روح کا لباس تھا، پیرہن تھا ، روح اصل ہے ، لباس کی اہمیت نہیں، اسی لیے اس کو سپرد خاک کردیتے ہیں لیکن روح باقی ہے اور حیات بھی باقی ہے صرف حیات کی نوعیت بدل گئی ۔
یہاں ایک اور نکتہ بھی ذہن میں رکھیں، یہ جو نام رکھے جاتے ہیں ، یہ روح کے نام ہوتے ہیں، جسم کے نہیں ۔ مثلاً ایک شخص ہے زید، اس کا انتقال ہوگیا ۔ یعنی جسم رہ گیا، روح نکل گئی ، اب اس کی ڈیڈ باڈی(میت) کو کوئی بھی زید نہیں کہتا ۔ ہر شخص اس کی ڈیڈ باڈی کو ’زید کی لاش‘ کہتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پھر زید کہاں گیا ؟ جانے والا زید صرف ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے ۔ جسم اس کا لباس تھا ، لباس کو رکھ کر کیا کرنا ہے ، یہ بیکار ہے ، کسی کام کا نہیں اسی لئے ہم اس کو دفن کردیتے ہیں۔
مرنے والا اب جس عالم ( عالم برزخ) میں گیا ہے وہاں اس کو دوسرا لباس یعنی دوسرا جسم عطا کیا جاتا ہے ۔ جب وہ کہیں جاتا ہے تو اسی مثالی جسم کے ساتھ جاتا ہے۔ خواب میں نظر آتا ہے تو اسی مثالی جسم کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اسی مثالی جسم کے ساتھ وہ قبر میں زندہ رہتا ہے ۔ یہاں جو جسم اس کو ملتا ہے وہ مادی نہیں ہوتا ، اسی لئے اس کو غذا کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ۔
قبرستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے مرحومین کو مخاطب کرکے سلام کرنے کا حکم ہے ، جس کے الفظ یہ ہوتے ہیں : السلام علیکم یا اھل القبور! اے قبروں کے باسیو تم پر سلامتی ہو ، تم ہم سے پہلے آگئے ، ہم بھی تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ضرور آملیں گے ۔ صحابہ کرام کو تعجب ہوا، انھوں نے عرض کیا، یا رسول اﷲﷺ! کیا مردے سنتے ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں ، نہ صرف وہ سنتے ہیں بلکہ تمہارے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں ، لیکن ان کا جواب تم نہیں سن سکتے ۔ دیکھا آپ نے قبرستان بھی زندوں سے آباد ہے ۔ صرف زندگی کی نوعیت کی بدلی ہوئی ہے ، بہرحال حیات کا تسلسل یہاں بھی باقی رہتا ہے ، مرگِ بدن سے جاں نہیں مرتی ۔ اقبالؔ نے یہی بات اک دوسرے انداز میں بھی کہی ہے :
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
یعنی موت سے وجود ختم نہیں ہوتا ، موت کے فرشتے کی رسائی انسان کے مرکز وجود تک نہیں ہے ۔ میں یہاں عالم برزخ کی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا ، میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی حیات انسانی کا تسلسل جاری رہتا ہے ۔