مولودِ کعبہ امیر المومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم

   

مولانا قاری محمد مبشر احمد رضوی
خلیفہ ٔچہارم شہنشاہِ ولایت‘ حیدر کرار‘ شاہِ ذوالفقار‘ سید الاولیاء کا نام نامی اسم گرامی ‘ علی کنیت ابو الحسن وابوتراب اور لقب اسد اللہ الغالب‘ امام الاولیاء وغیرہ ہیں۔آپؓ کو نفسِ رسول بھی کہا جاتا ہے۔آپؓ کی ولادتِ باسعادت۱۳؍ رجب المرجب روز جُمعہ عام الفیل کے تیس (۳۰) سال بعد مکئہ معظّمہ میں ہوئی۔ حضرت سیدنا عباس ابن عبد المطّلب ؓ(عم رسول اللہ) قبیلئہ بنی عبدالعزّیٰ کے چند لوگوں کے ساتھ مسجد حرام میں تشریف فرماتھے کہ آپکی والدہ فاطمہ بنت اسد ؓ مسجد میں آئیں اور جب وہ مشغولِ طواف ہوئیں اور چوتھے چکر میں درد ذِہ کی وجہ سے چلنے کی اُن میں ہمت نہ رہی تو آپ نے دُعا کے لئے اپنے ہاتھ اُٹھائے اور کہا اے رب ِ کعبہ بحرمتِ کعبہ اس ولادت کو مجھ پر آسان فرمایک لخت دیوارِ کعبہ شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسدؓ کعبہ میں تشریف لے گئیں اور ہماری نظروں سے غائب ہوگئیں اور چوتھے روز آپ اسی کعبہ سے باہر تشریف لائیں تو گود میں حضرت سیدنا علی ؓ موجود تھے۔ آپکے والد ابوطالب نے آپکا نام زید اور والدہ محترمہ نے اسد رکھا لیکن حضور انور ﷺ نے فرمایا اس کانام علی رکھو چنا نچہ اسی نام نامی اِسمِ گرامی سے آپ معنون اور مشہور ہوئے۔
ابن عساکر کے حوالے سے حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ کئی آیات قرآن عظیم میں حضرت علی ؓکے بارے میں نازل ہوئیں ۔
حضرت ابن عباس ؓ ہی کا ارشاد ہے کہ حضرت علیؓ کی شان میں تین سو آیات نازل ہوئیں، یہاں چند کا ذکر ہے : اوراسکی محبت پر مسکین ‘ یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ دوسری جگہ ارشاد ہے اُن سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے کسی اجر کے خواہاں ہیں اور نہ شکر کے۔ خدائے بزرگ و برتر نے اہل بیتِ اطہار کے اس صبر و ایثار کے جذبہ کو سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا اور مرحمت فرمائیگا انہیں صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس۔
حضرت سیدنا زید ابن ارقم ؓ فرماتے ہیں کہ حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہٗ فَھُوَ عَلِیّ مُوْلَاہْ ترجمہ : جس کامیں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں۔ مفسرین کرام ‘ محدثین عظیم اور علمائے ذوی الاحترام نے لفظ’’مولیٰ‘‘ کے معانی کبھی مددگار‘ کبھی وارث ‘ کبھی باپ کی طرف سے رشتہ دار اور کبھی دوست کے بتائے ہیں۔سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے علی تو میرا دنیا و آخرت میں بھائی ہے ۔ سید عالم ﷺ نے ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا : میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اُسکا دروازہ ہیں (ترمذی شریف ) اِس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی تفسیر لکھی یا بیان کی گئی ہے اُس تک رسائی حاصل کرنی ہو تو سیدنا علی ؓ کا وسیلہ ضروری ہے اگر کوئی شخص قلبی اور ذہنی طور پر آپکی ذاتِ بابرکت سے اپنے آپ کو دور رکھے گا تو پھر وہ فلسفہ و دانائی ‘ علم و حلمِ‘ سے ہمیشہ کیلئے دور رہیگا اور اُسے آتش حُبِّ دُنیا جلا کر راکھ بنا دیگی اور بغض و عنادو جہالت کے دلدل میں پھنستا چلاجائیگا۔( خلفائے رسول)
علامہ ابن حجر مکی ؒنے صواقِ محرقہ میں طبرانی‘ ترمذی‘ عقیلی اور ابن عدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضور رحمت عالم ﷺ نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اُسکا دروازہ ہیں۔ایک روایت میں ہیکہ جو علم حاصل کرنا چاہتا ہوتو وہ میرے دروازہ کے پاس آئے ۔ ایک دوسری روایت میں ہیکہ علی میرے علم کا دروازہ ہیں۔(صواعق محرخہ صفحہ ۱۲۲)
طبرانی نے حضرتہ امّ سلمیٰ ؓ سے بسند حسن بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے علی سے محبت کی اُس نے گویا مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی گویا اُس نے اللہ سے محبت کی ‘ جس نے علی سے بغض رکھا گویا اُس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا گویا اُس نے اللہ تعالیٰ سے دشمنی کی (مشکوٰۃ شریف) اِس حدیث شریف سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کی محبت سرمایۂ ایمان اور آپ سے بغض منافقت کی علامت ہے۔