مہر معجل سے سامان جہیز خریدنا

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدکی خواہش تھی کہ وہ کسی غریب لڑکی سے نکاح کرے۔ اور الحمدللہ زید کے والدین کو ایک غریب خاندان کی لڑکی پسند آگئی ہے۔ زید چاہتا ہے کہ مہر کے پیسے نکاح سے قبل دیدے، تاکہ لڑکی والوں کو جہیز خریدنے میں آسانی ہو۔ زید کے مہر دے دینے سے مہر ادا ہوجائے گا یا نہیں ؟ یا زید کو پھر علحدہ مہر ادا کرنا ہوگا؟ بعض حضرات یہ کہہ رہے ہیں کہ قبل از نکاح لڑکی والوں کو پیسہ دینا حرام ہے؟ کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب :صورت مسئول عنہا میں لڑکے کا سامان جہیز خریدنے کیلئے مہر کا پیشگی ادا کرنا شرعاً درست ہے۔لڑکی والے اگر دلہے سے کچھ رقم مہر معجل کے طریقے سے حاصل کریں، یا پورا مہر معجل لے لیں اور اس رقم سے لڑکی کا سامان جہیز تیار کریں تو یہ شرعاً درست ہے اور یہ رقم اور اس سے خریدا ہوا سامان جہیز لڑکی کی ملکیت ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیدۃ النساء بی بی فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ عنہا کا مہر معجل حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لے کر سامان جہیز تیار فرمایا تھا۔ تاریخ خمیس جلداول ص۴۰۸ میں المواھب اللدنیہ سے منقول ہے: وفی المواھب اللدنیۃ عن انس قال جاء ابوبکر ثم عمر یخطبان فاطمۃ الیٰ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فسکت ولم یرجع الیھما شیئاً فانطلقا الیٰ علی یامرانہ بطلب فاطمۃ قال علی فنبھانی لامر کنت عنہ غافلا فقمت اجر ردائی حتی اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقلت تزوجنی فاطمۃ قال او عندک شئی قلت فرسی و بدنی قال اما فرسک فلا بد لک منھا و اما بدنک فبعھا فباعھا باربعمائۃ و ثمانین درھما فجئتہ بھا فوضعتھا فی حجرہ فقبض منھا قبضۃ فقال ای بلال ابتع لنا بھا طیباً و امرھم ان یجھزو ھا فجعل لھا سریر مشرط و وسادۃ من ادم حشوھا لیف علی آخر ما سیجیء فی زفافہ۔
بعض حضرات نے جو اس کو حرام بتایا ہے یہ اس صورت میں ہے جبکہ لڑکی والے کچھ روپئے دینے کی شرط پر نکاح کرنے کے لئے آمادہ ہوں۔ یعنی اگر ان کو روپئے دیا جائے تو نکاح کردیتے ہیں ورنہ نہیں کرتے۔ اور اس روپئے کو وہ اپنے پر صرف کرلیتے ہیں اور لڑکی کے لئے اس کے علاوہ مہر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا اس شرط پر روپئے لینا حرام و رشوت ہے۔ زید کا اپنی خوشی سے مہر معجل سامان جہیز خریدنے کیلئے دینا شرعاً درست ہے۔ چنانچہ درمختار کتاب النکاح باب المہر میں ہے: ولو بعث الی امراتہ شیئا و یذکر جھۃ عندہ الدفع غیر المھر فقالت ھو ھدیۃ و قال ھو من المھر فالقول لہ فی غیر المھیئا للاکل ولھا فی المھیئا لہ۔
دعاء قنوت کا بھولنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وتر کی تیسری رکعت میں دعاء قنوت پڑھنا بھول جائے توکیاکرنا چاہئیے۔ میں دعاء قنوت بھول کر رکوع کرلیا اور رکوع میں یاد آیا تو میں کھڑے ہوکر دعاء قنوت پڑھا اور پھر رکوع کئے بغیر سجدہ کرلیا اور تشھد کے بعد سجدہ سہو نہیں کیا تو میری نماز وتر ہوئی یا نہیں ہوئی ؟
جواب:اگر کوئی شخص وتر کی نمازمیں دعاء قنوت بھول جائے اور رکوع میں چلے جائے تو وہ نہ رکوع میں دعاء قنوت پڑھے اور نہ دعاء قنوت پڑھنے کے لئے کھڑا ہو بلکہ اپنی نماز کو جاری رکھے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے۔ عالمگیری جلداول ص۱۱۱میں ہے: ’’ولو نسی القنوت فتذکر فی الرکوع فالصحیح انہ لایقنت فی الرکوع ولایعود إلی القیام ھکذا فی التتارخانیۃ ‘‘۔
اور اگر کوئی شخص رکوع سے اٹھکر دعاء قنوت پڑھے اور دوبارہ رکوع نہ کرے تو اسکی نماز فاسد نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ آخر میں سجدہ سھو کرے۔ اور اگر سجدہ سھو نہ کرے تو اس کا اعادہ ضروری ہے۔ ’’ فان عاد إلی القیام وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلوتہ کذا فی البحر الرائق۔ فقط واﷲ أعلم