نماز اہل مومن کی معراج

   

اسلامی تاریخ میں ماہ رجب المرجب کو اس اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ پیش آیا۔ معراج کا لغوی معنی ’’چڑھنے کا آلہ‘‘ یعنی سیڑھی ہے۔ معجزہ معراج شریف ہجرت سے پہلے سنہ بارہ نبوی رجب المرجب کی ستائیسویں شب میں پیش آیا۔حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کے مطابق ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ شریف کی حدود میں (اپنی چچازاد ہمشیرہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں) آرام فرما رہا تھے کہ مکان کی چھت کھولی گئی۔ جبرئیل علیہ السلام اُترے اور انھوں نے خادمانہ آداب کو ملحوظ رکھ کر آپﷺ کوبیدار کیا ۔ پھر آپﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب مبارک کو آب زم زم سے دھویا، پھر اس کو ایمان و حکمت اور تجلیات الہی سے معمور کرکے سی دیا۔ پھر عرض کیا ’’یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے‘‘۔
رسول اللہ ﷺکی سواری کے لئے حضرت جبرئیل علیہ السلام براق لے کر آئے تھے۔ سواری کا یہ مقدس جانور دراز گوش سے بڑا اور خچر سے قد میں چھوٹا تھا، مگر بجلی کی طرح تیز رفتار تھا۔ وہ اپنا قدم وہاں رکھتا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس براق پر سوار ہوکر حضرت جبرئیل علیہ السلام کی معیت میں بیت المقدس پہنچے۔ پھر آپ نے اس براق کو اس حلقہ سے باندھ دیا، جس میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام باندھا کرتے تھے۔ وہاں تمام انبیاء سابقین پہلے سے موجود تھے اور نماز کے لئے صفیں آراستہ کرکے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے، جس طرح مقتدی صفیں باندھے امام کے منتظر ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺمصلے پر جلوہ افروز ہوکر دو رکعت نماز کی امامت فرمائی۔
اس کے بعد عرش کا سفر ہوا ۔ پھر اس کے آگے جب سدرۃ المنتہی پہنچے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! اگر میں بال برابر بھی آگے بڑھا تو اللہ تعالی کے انوار و تجلیات سے میرے بال و پر جل جائیں گے‘‘۔ چنانچہ براق اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کا ساتھ سدرۃ المنتہی تک رہا، اس کے آگے آپﷺ اکیلے تشریف لے گئے اور تمام حجابات سے گزرتے ہوئے پہلے مقام ’’دنیٰ‘‘ پھر مقام ’’فتدلی‘‘ پر پہنچے۔ وہاں سے گزرے تو مقام ’’قاب قوسین‘‘ پر اور پھر مقام ’’او ادنی‘‘ پر فائز ہوئے۔حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تبارک و تعالی نے معراج میں میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں۔ میں ان نمازوں کو لے کر لوٹا تو راستے میں حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے دریافت کیا کہ ’’آپ کے رب نے آپ کی اُمت پر کیا فرض کیا ہے؟‘‘۔ میں نے کہا ’’پچاس نمازیں عطا کی گئی ہیں‘‘۔ حضرت موسی ؑنے عرض کیا کہ ’’آپ کی امت اتنی نمازیں نہیں پڑھ سکے گی، لہذا واپس جائیں اور کم کرائیں‘‘۔ آپﷺ حضرت موسی علیہ السلام کے مشورہ پر بار بار جاتے رہے اور ہر بار پانچ نمازیں کم کردی جاتیں، یہاں تک کہ پانچ وقت کی نماز رہ گئی۔ پھر اللہ تعالی کا ارشاد ہوا ’’اے نبی! یہ خیال نہ کرنا کہ نمازوں کو کم کیا ہے تو ثواب بھی کم کردیا جائے گا۔ آپ کا جو امتی پانچ وقت کی نماز ادا کرے گا، اس پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’نماز مؤمنوں کی معراج ہے۔ نماز اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے‘‘۔