وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر

,

   

سدا رامیا اور شیو کمار … میان آف دی میچ
بی جے پی کو مودی کے متبادل چہرے کی تلاش

رشیدالدین
پھول کے مرجھانے کے بارے میں ہر کسی نے دیکھا اور سنا لیکن چہرے کے مرجھانے کا مشاہدہ کرناٹک اسمبلی چناؤ میں سارے ملک نے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مرجھانے والا چہرہ کنول کی آڑ میں تھا۔ کنول ہو یا گلاب مرجھانا ان کا مقدر ہوتا ہے۔ کنول چونکہ کیچڑ میں کھلتا ہے لیکن اس سے وابستہ افراد کی خصوصیات بھی دوسروں سے جداگانہ ہوتی ہے۔ بی جے پی نے کنول کو نفرت کی علامت بنادیا اور وزیراعظم نریندر مودی کا چہرہ بھی کنول کے سایہ میں کھل اٹھا تھا۔ جس طرح ہر عروج کو زوال ہے اور پھول کھلنے کے بعد مرجھانا طئے ہے، اسی طرح ملک میں کنول کے ساتھ نریندر مودی کا چہرہ بھی اپنی آب و تاب اور عوام میں اعتبار کھونے لگا ہے ۔ جس چہرہ کو پیش کرتے ہوئے بی جے پی گزشتہ 9 برسوں کے دوران کامیابی حاصل کرتی رہی، کرناٹک میں اسی چہرہ سے نقاب اتر گئی ۔ وکاس کے نام پر مودی کا چہرہ پیش کرتے ہوئے درپردہ نفرت کی سیاست کی گئی لیکن کرناٹک کی عوام نے نفرت کے سوداگروں کو شکست دیتے ہوئے 2024 ء لوک سبھا انتخابات کا سامنا کرنے کیلئے اپوزیشن کو حوصلہ دیا۔ بی جے پی کے پاس مودی میجک کے علاوہ جیت کا کوئی منتر نہیں تھا۔ دو مرتبہ مودی سہارے مرکز اور کئی ریاستوں میں اقتدار حاصل کیا لیکن کرناٹک سے زوال کا آغاز طئے ہوچکا ہے۔ مودی ۔ امیت شاہ جوڑی کامیابی کی ضمانت بن چکی تھی۔ ان چہروں نے کرناٹک کی مہم کو زہر آلود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن نتیجہ نفرت کے خلاف اور محبت کے حق میں رہا۔ مودی ۔ امیت شاہ چہروں کو راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے چہروں سے شکست فاش ہوئی ۔ بقول راہول گاندھی کرناٹک میں محبت کی دکانیں کھل گئیں اور نفرت کی دکانیں بند ہوگئیں۔ مودی نے انتخابی قواعد کی کھل کر خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف مذہب کے نام پر ووٹ مانگے بلکہ بھگوان کو بھی نعرہ کی شکل میں مہم کا حصہ بنادیا جبکہ امیت شاہ نے کانگریس برسر اقتدار آنے پر فسادات کی دھمکی دی۔ قدرت کو منظور کچھ اور ہی تھا۔ نفرتوں کی رات ڈھل رہی تھی اور محبت اور امیدوں کی سحر ابھر رہی تھی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ دو چہروں سے مقابلہ کیلئے کانگریس میں دو چہرے تیار ہوچکے ہیں۔ کرناٹک کی ہار محض بی جے پی کی نہیں بلکہ مودی اور امیت شاہ کی شکست کی ہے۔ 9 سال تک جو چہرہ کامیابی کی ضمانت اور ناقابل تسخیر سمجھا جارہا تھا، اسے کرناٹک کے باشعور رائے دہندوں نے دھول چٹادی۔ چہرہ کی شکست اور اعتبار سے محرومی نے راجستھان، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کردیا اور کانگریس پارٹی کو الیکشن لڑنے کا گر سکھادیا ہے ۔ کرناٹک کے نتائج نے اپوزیشن کو کانگریس کے اطراف آنے کیلئے مجبور کردیا ہے ۔ اپوزیشن اتحاد کی سرگرمیوں کو تقویت حاصل ہوئی۔ کانگریس اب ہر ریاست کیلئے مقامی ضرورت کے مطابق لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے مقابلہ کرے گی۔ بجرنگ دل پر پابندی کا وعدہ راجستھان ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں نہیں رہے گا۔ اہم علاقائی جماعتوں کو احساس ہوچکا ہے کہ کانگریس کے بغیر بی جے پی کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ ترنمول سربراہ ممتا بنرجی نے ڈسمبر 2021 ء میں شرد پوار سے ملاقات کے وقت ملک میں کانگریس مکت اپوزیشن کی بات کہی تھی لیکن کرناٹک نتیجہ کے ساتھ ہی دیڑھ برس میں یو ٹرن لیتے ہوئے ممتا بنرجی نے کہا کہ جہاں بھی کانگریس مضبوط ہوگی وہاں تائید کی جائے گی۔ اکھلیش یادو نے بھی مخالف مودی ووٹ کی تقسیم روکنے کیلئے فارمولہ پیش کیا کہ جہاں جو پارٹی مضبوط ہوگی ، وہاں دوسرے تمام اس کی تائید کریں گے۔ کرناٹک نہیں بلکہ جنوبی ہند سے بی جے پی کی گھر واپسی میں مسلمان اور درج فہرست اقوام کا اہم رول رہا۔ جملہ آبادی کا 20 فیصد کانگریس کے حق میں متحد ہوگیا جبکہ دلتوں نے بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا کام کیا۔ بی جے پی نے او بی سی طبقات کی سیاست کی جبکہ دلت اور ایس ٹی طبقہ نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ ثابت کردیا کہ وہ جس کے ساتھ ہوں گے کامیابی اس کا مقدر بن جائے گی۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن کو دلت ، مسلم اور ایس ٹی طبقات کے اتحاد پر توجہ دینی چاہئے۔ ملک میں بی جے پی اور کانگریس کے پاس اپنی طاقت کے بل پر چار چار ریاستیں ہیں۔ گجرات ، اترپردیش ، آسام اور اترا کھنڈ میں بی جے پی اپنی طاقت سے حکومت قائم کرچکی ہے جبکہ بعض دیگر ریاستوں میں توڑ جوڑ یا حلیف جماعتوں کے ساتھ حکومت قائم ہے، جن میں مدھیہ پردیش ، مہاراشٹرا ، گوا اور ہریانہ شامل ہیں۔ کانگریس راجستھان ، چھتیس گڑھ ، ہماچل پردیش اور کرناٹک میں برسر اقتدار ہے جبکہ بہار اور جھارکھنڈ میں حلیف پارٹیوں کی تائید کر رہی ہے۔ جنوبی ریاستوں کیرالا ، کرناٹک ، ٹاملناڈو ، آندھراپردیش اور تلنگانہ کے رائے دہندے زیادہ باشعور ہیں اور انہوں نے جنوب میں بی جے پی کا داخلہ بند کردیا۔ کرناٹک نتائج سے کانگریس اور اپوزیشن کو پتہ چلا کہ قومی مسائل کے بجائے مقامی مسائل اور عوام کی ضرورتوں پر مبنی ایجنڈہ ہونا چاہئے ۔ مودی نے جن علاقوں میں نفرت کا پرچار کیا ، وہاں بی جے پی کو شکست ہوئی ۔ حجاب، حلال ، لو جہاد ، کیرالا اسٹوری فلم جیسے موضوعات سے عوام عاجز آچکے ہیں۔ کرناٹک میں حجاب پر پابندی لگانے والے وزیر تعلیم بی سی نگیش اور حلال میٹ کے خلاف مہم چلانے والے روی کمار کو شرمناک شکست ہوئی ۔
کرناٹک میں تقریباً 30 سال بعد کانگریس کے اچھے دن واپس ہوئے۔ پارٹی نے متحدہ طور پر مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی کو یقینی بنایا ۔ کرناٹک چناؤ کو مبصرین ٹوئنٹی20 میاچ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ کانگریس ٹیم کے مینجر ملکارجن کھرگے تھے جبکہ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے کوچ کا کردار ادا کیا ۔ سدا رامیا اور شیو کمار میان آف دی میچ رہے۔ کرناٹک ٹیم نے مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت بسوا راج بومائی اور یدی یورپا ٹیم کو بری طرح شکست دے دی ۔ شکست کے بعد بھی بی جے پی نے کانگریس میں پھوٹ پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ نئے چیف منسٹر کے انتخاب کی سرگرمیوں کے دوران بی جے پی نے کھل کر شیو کمار کی تائید کی ۔ حالانکہ کسی پارٹی کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کی جاتی۔ بی جے پی کیلئے شیو کمار فائدہ مند ثابت ہوسکتے تھے کیونکہ شیو کمار کے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی کے مقدمات ہیں۔ وہ مقدمات کے سلسلہ میں جیل میں بھی رہ چکے ہیں۔ اگر شیو کمار کو چیف منسٹر بنایا جاتا تو دوسرے ہی دن سے تحقیقاتی ایجنسیاں نوٹس جاری کرتیں اور ایک چیف منسٹر کو تحقیقاتی ایجنسیوں کے دفاتر کے چکر کاٹنے پڑتے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ شیو کمار کو گرفتار کر کے حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا جاتا ۔ کانگریس نے اس سازش کو محسوس کرتے ہوئے شیو کمار کو چیف منسٹر کے بجائے ڈپٹی چیف منسٹر کیلئے راضی کرلیا ۔ بی جے پی کو اعتراض اس بات پر بھی ہے کہ چیف منسٹر کے انتخاب کیلئے چار دن لگ گئے ۔ شائد وہ بھول رہے ہیں کہ اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کو پہلی مرتبہ چیف منسٹر منتخب کرنے کیلئے بی جے پی کو 10 دن لگ گئے تھے۔ شرمناک ہار کے بعد مودی اور امیت شاہ کسی عوامی تقریب میں ابھی تک دکھائی نہیں دیئے ۔ کانگریس نے مدھیہ پردیش ، راجستھان ، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کیلئے ابھی سے ایکشن پلان کی تیاری شروع کردی ہے۔ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ اور چھتیس گڑھ میں چیف منسٹر بگھیل کو قیادت کی ذمہ داری دی جائے گی جبکہ تلنگانہ مہم کی کمان خود پرینکا گاندھی کے ہاتھ میں ہوگی۔ ملک کی 14 ریاستوں میں 343 لوک سبھا نشستوں میں کانگریس کو صرف 12 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ اترپردیش ، بہار ، مدھیہ پردیش ، اڈیسہ ، جھارکھنڈ ، مہاراشٹرا اور مغربی بنگال میں کانگریس کو صرف ایک نشست پر اکتفا کرنا پڑا۔ بی جے پی کو اقلیتوں اور ایس ٹی طبقہ سے خوف لاحق ہوچکا ہے۔ آسام میں مسلمان 34 فیصد ہیں جبکہ اترپردیش میں 19 ، بہار 16 اور مہاراشٹرا میں 11.5 فیصد مسلمان ہیں۔ اگر لوک سبھا انتخابات میں کرناٹک کی طرح مسلمان اور ایس ٹی ووٹ کانگریس کے حق میں متحدہ طور پر منتقل ہوجائیں تو پھر بی جے پی کو شکست سے کوئی بھی چہرہ نہیں بچا سکتا ۔ بی جے پی او بی سی طبقات کو اپنے حق میں کرنے میں ناکام ہوگی کیونکہ کانگریس نے او بی سی طبقات کی آبادی کے مطابق تحفظات کا کارڈ پھینکا ہے ۔ اپوزیشن میں اتحاد کی کمی اور اہم طبقات کے ووٹوں کی تقسیم کا بی جے پی مرکز اورر یاستوں میں فائدہ اُٹھاتی رہی ہے لیکن اب صورتحال تبدیل ہونے جارہی ہے۔ کرناٹک میں کانگریس نے صرف اسمبلی الیکشن نہیں جیتا بلکہ ملک کے اس چہرہ کو شکست دی جو آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی سرپرستی میں ملک کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنے کی مہم پر تھا۔ گلزار نے کیا خوب کہا ہے ؎
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے