پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن

   

چھوڑدی دنیا کسی نے
ہر طرف ماتم بہت ہے
پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن
پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن میں حکومت کے حالیہ فیصلوں اورپیش کئے جانے والے بلوں کے خلاف اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے امکانات کے ساتھ اجلاس کا آغاز ہوا ، یہ سیشن دیگر سیشنوں کی طرح ہنگامہ خیز ہوگا۔اس طرح اپوزیشن پارٹیوں کو عوامی مسائل اُٹھانے اور حکومت کی یکطرفہ و من مانی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے کے خلاف احتجاج کرنے کا موقع ملے گا۔ نیشنل کانفرنس لیڈر سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر فاروق عبداللہ اور کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم کی ایوان میں عدم موجودگی کا مسئلہ اُٹھاتے ہوئے اپوزیشن نے ان دونوں قائدین کو ایوان میں شرکت کی اجازت دینے پر زور دیا۔ کشمیر میں فاروق عبداللہ کو گزشتہ 108 دن سے نظر بند کر رکھا گیا ہے تو چدمبرم کو آئی این ایکس کیس میں جیل میں قید کیا گیا ہے۔ یہ دونوں ارکان پارلیمنٹ ہیں لیکن اس سیشن میں ان کی حاضری غیر یقینی بنادی گئی ہے۔ کانگریس نے سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کی ایس پی جی سیکورٹی ہٹالینے پر شور و غل کرتے ہوئے لوک سبھا میں واک آؤٹ کیا ہے۔ مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن کے اس احتجاج کیلئے کئی موضوعات ہیں، حکومت نے اپنی کارکردگی سے ملک کی روایات کو بالکل اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ کشمیر میں 370 آرٹیکل کی برخواستگی کے بعد وہاں کے سیاسی و سماجی قائدین کو جیلوں میں بھردیا گیا۔ اپوزیشن قائدین کے ساتھ حکومت کا ڈسپلن ہی ختم ہوگیا ہے۔ حیرت ہے کہ مودی حکومت نے اپنی لاکھ خرابیوں کے باوجود پارلیمنٹ سیشن میں مزید بلوں کو متعارف کروانے کی تیاری کی ہے۔ اس حکومت کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس نے اپوزیشن کی آواز کو خاطر میں نہیں لایا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن‘ حکومت کی پالیسیوں کا تعاقب کرتے کرتے بے دَم ہوتی جارہی ہے اور دوسری طرف مہنگائی کی دوڑ میں اپنی جیب بچانے کی کوشش کرتے ہوئے عوام کی سانسیں پھول گئی ہیں۔ مگر کیا مجال کہ مودی حکومت میں ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی بڑھانے کے مافیا کو ترس آرہا ہو۔ ملک بھر سے برداشت کے حوالے سے کہیں سے بھی کوئی اچھی رپورٹ سامنے نہیں ہے۔ اپوزیشن کانگریس کو اپنے قائدین کی ایس پی جی کی فکر ہے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی فکر نہیں ہے۔ اس ملک میں ہر طرف عدم برداشت کے واقعات دکھائی دے رہے ہیں پھر بھی عوام نے کافی حد تک برداشت کرلیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں برقرار رہے تو عوام کی قوت برداشت جواب دے جائے گی۔مودی حکومت نے بجٹ سیشن جون اور اگسٹ کے درمیان دونوں ایوان سے متعدد بل منظور کروائے ان میں سے کئی بل اور اس کے سنگین نتائج برآمد کرنے والے ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں پیر سے شروع ہوچکا سرمائی سیشن بھی کئی بلوں کو پیش کیا جارہا ہے، حکومت صرف بلوں کی منظوری میں مصروف ہے جبکہ اپوزیشن کو ملک کی معاشی ابتری اور بے روزگار پر بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل سے نظریں بچاکر مودی حکومت نے اپنی دوسری میعاد کو دوسرے پارلیمانی سیشن میں کئی بلوں کو آگے بڑھانے کو ترجیح دی ہے۔ سب سے اہم بل شہریت ترمیمی بل ہے۔ سٹیزن شپ بل کے خلاف شمال مشرقی علاقوں میں شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس بل کو لانے کا مقصد افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے غیر مسلم شہریوں کو ہندوستانی شہریت کے اہل بنایا جائے۔ سٹیزن شپ قانون 1955 میں یہ گنجائش فراہم کی گئی تھی کہ پڑوسی ملکوں میں رہنے والے ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائیوں کو ہندوستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والے تصور نہ کیا جائے۔ غیر مسلموں کو سٹیزن شپ دینے کا فیصلہ کرنے والی حکومت آسام کے مسلمانوں کے بشمول ہندوستان کے مسلمانوںکے مستقبل کو غیر یقینی بنانے کی سازش پر عمل کرنا چاہتی ہے۔ قومی سلامتی کے نام پر ہندوستان سے مسلمانوں کا صفایا کرنے کی خفیہ یا علانیہ پالیسی پر اب دنیا کے بیشتر اداروں اور تنظیموں نے اپنی تشویش کا بھی اظہار کیا ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ مسلم سیاسی پارٹیوں، مذہبی تنظیموں، مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے اداروں کو مودی حکومت کے ترمیمی بل شہریت کے خلاف سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک نازک مسئلہ ہے اس کو لاپرواہی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مودی حکومت کے سیاسی اصطبل میں اختیار کی جارہی حکمت عملیاں اس ملک کو خانہ جنگی کی جانب لے جارہی ہیں۔ اُصولوں کی پاسداری کرنے والے ہندوستانی عوام کو آج بھی اس امر کا پچھتاوا ہے کہ انہوں نے مودی حکومت کو ووٹ دے کر خسارہ کرلیا ہے۔ پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کو کارآمد بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر اس حکومت کی مطلق العنانیت کو کمزور کردیں۔