پاکستان چلے جاؤ ۔ مسلم برادری کیخلاف منصوبہ بند طنز

   

رام پنیانی
’پاکستان چلے جاؤ‘ شاید آج ہندوستان کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا فقرہ ہے۔ حال میں اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اکھلیش نرائن سنگھ نے شہر کے نمایاں ’مسلم‘ محلہ لیزاری گیٹ میں احتجاجیوں پر چلاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان چلے جاؤ‘ (اس واقعہ کا ویڈیو زیرگشت ہے)۔ ویڈیو میں ایس پی کہہ رہا ہے، ’’بازوؤں پر سیاہ یا زرد پٹی لگانے والوں سے کہہ دو کہ پاکستان چلے جائیں‘‘۔ پولیس فورس میں اکھلیش نرائن کے سینئرز نے ان کی حمایت کی ہے۔ وہ اسے موافق پاکستان نعرے لگانے والے ہجوم کے خلاف ’’فطری‘‘ ردعمل قرار دے رہے ہیں۔ برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی قائدین بشمول سابق چیف منسٹر مدھیہ پردیش و مرکزی وزیر اوما بھارتی نے بھی ان کی حمایت کی ہے۔ تاہم، ساتھی بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی نے اپنے پارٹی رفقاء سے اختلاف کیا۔ انھوں نے کہا کہ اکھلیش نرائن کے خلاف کارروائی ہونا چاہئے۔ یہ وہی نقوی ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ جو بیف کھانا چاہتے ہیںوہ پاکستان چلے جائیں۔ یہ تب کی بات ہے جب مسلمانوں اور دلتوں کی لنچنگ کے سلسلہ وار واقعات کے بعد ملک میں بیف سے متعلق بحث چل رہی تھی۔ یاد نہیں پڑتا کہ آیا کسی بی جے پی لیڈر نے مسلم شہریوں کے خلاف ’پاکستان چلے جاؤ‘ کا طنزیہ فقرہ استعمال کرنے کی مخالفت کی ہے۔ لیکن اپنے اکثریتی موقف کے عین مطابق موافق حکومت عناصر جو اس کی انتشار پسند سیاست کی حمایت کرتے ہیں، انھوں نے نقوی کو اس مسئلہ کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ چند سال میں بی جے پی نے ایسے بے شمار لوگوں کو اُبھرنے کا موقع دیا ہے جو اس مخصوص ’پاکستان‘ نعرہ کو طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو بالعموم ناپسندیدہ بناکر پیش کیا ہے تاکہ اُن کی ہتک کی جائے جن کے نام مسلمانوں جیسے ہوں۔

جب ممتاز مصنفین اور فلمساز انھیں حکومت کے عطا کردہ ایوارڈز سماج میں بڑھتی عدم رواداری کے خلاف بطور احتجاج واپس کررہے تھے، بالی ووڈ اسٹار عامر خان نے بیان دیا کہ اُن کی شریک حیات کرن راؤ کو اس ماحول میں اپنے بیٹے کے مستقبل کے تعلق سے فکر ہوتی ہے۔ اس پر بی جے پی قائدین جیسے گری راج سنگھ فوری عامر خان پر ٹوٹ پڑے اور مطالبہ کرنے لگے کہ وہ ’پاکستان چلے جائیں‘۔ گزشتہ چند برسوں میں مسلمانوں کی ہتک کیلئے ایک اور پہلو کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ جو بی جے پی کی پالیسیوں اور اس کے نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ناقد ہوں، انھیں ’قوم دشمن‘ قرار دیا گیا ہے۔ اور اب انھیں ’’پاکستان کی زبان‘‘ بولنے کا مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ ہندوستان کے پڑوسی اور مسلم اکثریتی ملک کا ہندوستان میں تمام مسلمانوں اور ناراض عناصر کو تنگ کرنے کیلئے بے جا استعمال فرقہ پرست قوتوں کی عیارانہ حکمت عملی ہے۔ یہ تو ’کرکٹ نیشنلزم‘ سے ایک قدم آگے ہے، جہاں مسلمانوں کی قوم سے وفاداری کی جانچ اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ کس کھلاڑی یا ٹیم کی وہ مبینہ طور پر حمایت کرتے ہیں۔ انڈیا۔ پاکستان کرکٹ میچ سے پیدا کردہ قومی جنونی کیفیت نے دائیں بازو والے ہندو قوم پرستوں کو ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا موقع دیا۔ جیسے ہی کوئی میچ کا اعلان ہوتا ہے، وہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان یقینی طور پر پاکستان کی ٹیم کی تائید و حمایت کررہے ہیں۔ اس معاملے میں بدقسمتی سے کسی قدر سچائی یہ ہے کہ ناراض اور الگ تھلگ کئے گئے مسلمانوں کا گوشہ پاکستان کیلئے جوش و خروش ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، یہ پوری تصویر کا عکاس نہیں ہے۔ نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کو انڈین ٹیم کی فتح کی امید رہتی ہے، بلکہ ہندوستان میں کئی اسٹار مسلم کرکٹرز رہے ہیں، جنھوں نے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کے خلاف بھی ہندوستانی کرکٹ فتوحات میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ کرکٹ لجنڈز جیسے منصور علی خان پٹوڈی، محمد اظہر الدین، عرفان پٹھان اس طویل فہرست میں چند نام ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر ہندوستان کا شاندار امیج قائم کیا ہے۔

حتیٰ کہ دفاع کے امور میں غیرمعمولی مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ ہندوستان کی جنگوں میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ انڈین آرمی کے سپاہی عبدالحمید کا 1965ء کی ہند۔ پاک جنگ میں رول اور کرگل جنگ میں مسلم سپاہیوں کا رول ہماری ملٹری تاریخ کا حصہ ہیں۔ آرمی جنرل بھی رہے ہیں جنھوں نے قوم کی خدمت کی ہے۔ جنرل ضمیر الدین شاہ کو 2002ء کے گجرات قتل عام سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ انھوں نے بیان کیا کہ کس طرح مقامی نظم و نسق کے کچھ مدت تک تعاون سے انکار کے باوجود آخرکار ملٹری ریاست میں پھیل رہے تشدد پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی۔
تحریک آزادی کے دوران مسلمان کسی بھی دیگر کمیونٹی کی طرح برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کا حصہ رہے۔ ایسا باور کرایا گیا کہ مسلمان علحدہ مملکت پاکستان کا مطالبہ کرتے رہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مخصوص اعلیٰ طبقہ نے ہی مسلم لیگ کی سیاست کی حمایت کی۔ بعد میں وہی لیگ نے بعض دیگر گوشوں کو متحرک کیا اور 16 اگست 1946ء کو تشدد برپا ہوا، جسے ’ڈائریکٹ ایکشن ڈے‘ کے طور پر یاد کیاجاتا ہے۔تب کولکاتا میں بدترین فسادات پھوٹ پڑے تھے کیونکہ مسلم لیگ کونسل نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور علحدہ ملک پاکستان کیلئے اپنے مطالبہ کو پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک طرح سے ہندوستان کی تقسیم کا حقیقی عمل اسی موقع پر ٹھوس شکل اختیار کرگیا۔ تاہم، یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس طرح کی فرقہ وارانہ تقسیم انگریزوں کا مقصد اور ’دو قومی نظریہ‘ کا نتیجہ بھی تھی۔

زیادہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کے قومی تحریک میں رول کا کچھ خاص ذکر نہیں ہوتا ہے؛ وہ جنھوں نے تقسیم کی ثابت قدمی سے مخالفت کی اور ان افکار اور سیاست کی بھی جو اس کا موجب بنے۔ تحریک آزادی میں مسلمانوں کے رول کو شاندار طریقے سے کئی مصنفین نے بیان کیا ہے جیسے سید ناصر احمد، سید عبیدالرحمن، ستیش گنجو اور شمس الاسلام۔ وہ عظیم مسلم مجاہدین آزادی جیسے خان عبدالغفار خان، مولانا ابوالکلام آزاد، انصاری برادران اور اشفاق اللہ خان کی قربانیوں کو بیان کرتے ہیں۔ تقسیم کے فوری بعد فرقہ پرست پروپگنڈہ زور و شور سے ہوا اور تقسیم کیلئے پوری طرح مسلم علحدگی پسندی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ اس نے حصولِ آزادی میں عام مسلمانوں کے رول کو بالکلیہ ماند کردیا۔ اس نے زبردست جلوسوں اور ریالیوں کو نظرانداز کیا جو بانی آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی محمد علی جناح کی جانب سے اپنی پارٹی کی ورکنگ کمیٹی میں پیش کردہ لاہور قرارداد کی مخالفت کئے۔ اس کے نتیجے میں ساری مسلم برادری کو ’دوسری طرف‘ سے ہم آہنگ قرار دیا جانے لگا۔ اس سے مسلم کمیونٹی کے خلاف دیگر غلط فہمیوں کی بنیاد پڑنی شروع ہوئی؛ مثال کے طور پر مسلم بادشاہوں کی زیادتیوں کو انفرادی ہندوستانی مسلمانوں سے جوڑا جانے لگا۔ یہ ہندوستان میں عام چرچا کا حصہ بن گیا، جس سے ان کے خلاف نفرت بڑھنے لگی۔ اس پر ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انھیں ہراساں کرنے کی بنیاد پڑی۔
ہندوستان میں باہم میل جول والا ماحول جس پر مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو نے عمل کیا، اسے حاشیہ پر کردیا گیا۔ تکثیریت پر ایقان رکھنے والوں نے سرگرمی سے اس مسئلہ پر کچھ نہیں کیا۔ مسلمانوں کو معاشی طور پر حاشیہ پر کردینا، اس کے ان کی بڑھتی عدم سلامتی ان میں سے بعض کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کا موجب بنے۔ پھر ایک بار اس معمولی گوشہ کو ساری مسلم برادری کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ آج قیاسی لڑائی ہندوستان کی مسلم برادری کے خلاف شدید ہے۔ لہٰذا، یہ تعجب خیز ہے کہ نقوی نے اپنے پارٹی رفقاء سے اختلاف کیا اور خاطی پولیس آفیسر اکھلیش نرائن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ حقیقی کامیابی تب ہوگی بشرطیکہ اس خیال کے خلاف ہمہ جہت دباؤ ڈالا جائے، جو ہندوستان کی اس مذہبی اقلیت کے خلاف پیدا کیا جارہا ہے۔
ram.puniyani@gmail.ocm