پنجوقتہ نمازوں کے بعد دعا اور اذکار کا صحیح طریقہاور نماز میں ٹوپی کی اہمیت

   

سوال : ۱۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پنجوقتہ نمازوں کے بعد کونسے اذکار پڑھنا چاہئے اور ان کے پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟
۲۔ کیا ظہر، مغرب اور عشاء کی فرض نمازوں کے ساتھ ہی سنت و دیگر نمازوں کی ادائیگی سے پہلے ذکر و اذکار میں مشغول ہونا صحیح ہے ؟
۳۔نمازوں میں ٹوپی پہننے کی اہمیت کیا ہے وضاحت فرمائیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب: ۱ ۔ ۲۔ شرعاً جن نمازوں کے بعد سننِ رواتبہ ہیں ان میں فرض کی ادائی کے بعد اتنی مقدار بیٹھنا ہے، جس میں یہ دعا پڑھی جائے ’’ أَللّٰهمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ ، تَبَارَکْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ.‘‘۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت کان رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لم یقعد اِلا مقدار ما یقول أَللّٰهمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ ، تَبَارَکْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ. (رواہ مسلم، مشکاۃ المصابیح باب الذکر بعد الصلوۃ)۔ اور جن نمازوں کے بعد سننِ رواتبہ نہیں، ان میں اور بعد ادائی سننِ رواتبہ دیگر نمازوں میں تینتیس مرتبہ تسبیح (سبحان ﷲ)، تینتیس مرتبہ تحمید (الحمد ﷲ)، اور چونتیس مرتبہ تکبیر (أللہ أکبر) پڑ ھے۔ اسکو پڑھنے والا مایوس نہ ہوگا۔ عن کعب بن عجرۃ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم معقبات لا یخیب قائلھن أو فاعلھن دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ثلٰث و ثلثون تسبیحۃ و ثلٰث و ثلثون تحمیدۃ و اربع ث ثلٰثون تکبیرۃ۔
(رواہ مسلم، مشکاۃ المصابیح باب الذکر بعد الصلوات)
لہذا ظہر، مغرب اور عشاء کی فرائض کے بعد سننِ رواتبہ ہیں، ان میں ’’أَللّٰھُمَّ أَ نْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَـبَارَکْتَ یَآ ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ‘‘کے علاوہ دیگر اذکار کرنا، تاخیر کا باعث ہوگا۔ جس سے ثواب میں کمی ہوگی، لہذا نہیں کرنا چاہئے۔ فتاوی عالمگیری جلد اول کتاب الصلاۃ باب فی النوافل ص ۱۱۳ میں ہے: أما السنن التی بعد الفرائض فیأتی بھا فی المسجد فی مکان صلی فیہ فرضہ والأولی ان یتخطی خطوۃ فالامام یتأخر عن مکان صلی فیہ فرضہ لا محالۃ کذا فی الکافی … ولو تکلم بعد الفریضۃ طل تسقط السنۃ، قیل یسقط وقیل لا ولکن ثوابہ أنقص من ثوابہ قبل التکلم کذا فی النہایۃ۔
۳۔ شرعاً ٹوپی پہننا سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ فتاوی عالمگیری جلد ۵ باب فی اللبس وما یکرہ من ذلک و مالا یکرہ ص ۳۳۰ میں ہے: ولا بأس بلبس القلانس و قد صح انہ صلی اﷲ علیہ وسلم کان یلبسھا کذا فی الوجیز للکردری۔ حالت نماز میں سر کھلا رکھ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اگر تذلل کی غرض سے ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اگر نماز کی اہانت کی غرض سے ہو تو کفر ہے۔ درمختار بر حاشیہ ردالمحتار جلد اول مطلب فی مکروہات الصلاۃ ص ۴۷۴ میں ہے : (وصلاتہ حاسدا) کاشفا (رأسہ للتکاسل) فلا بأس بہ للتذلل و أما للاھانۃ فکفر۔ فقط واﷲ أعلم بالصواب