پہلی ملاقات

   

رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری
حضرت ابوبکر اس وقت مکہ کے صرف ایک دیانت دار فیاض تاجر تھے، اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ اسی درمیان میں انھیں تجارتی مہم پر ملک شام کا ایک سفر درپیش ہوا اور وہ ضروری تیاریوں کے بعد روانہ ہو گئے۔ ان کے ہمراہ ان کا وفادار غلام بھی شریک سفر تھا۔ راستہ طے ہوتا رہا، منزلیں بدلتی رہیں، ہفتوں شبانہ روز چلتے چلتے اب ملک شام کی سرحد شروع ہو گئی۔ عربی سوداگر کا یہ مختصر سا قافلہ اب ملک شام کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ لق و دق صحرا سے گزرتے ہوئے شام ہو گئی۔ سیاہ بادل کے بکھرے ہوئے ٹکڑے تیزی سے آفاق پر سمٹنے لگے۔ دیکھتے دیکھتے کالی گھٹاؤں کے پردے میں سورج کی لرزتی ہوئی کرن ڈوب گئی۔ اب شام کا وقت، گرجتا ہوا موسم اور دامن صحرا میں دو ننھی جانوں کا قافلہ، ہر طرف سے مایوسیوں نے گھیر لیا۔
حیرانی کے عالم میں اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے تیز تیز قدموں سے چلنے لگے کہ فضاء میں رات کی تاریکی جذب ہونے سے پہلے پہلے جنگل کی حدود سے باہر نکل جائیں۔ رحمتِ باری شریک حال تھی، چند ہی قدم چلنے کے بعد جنگل کی حد ختم ہو گئی۔ اب کھلے میدان کا اُجالا نگاہوں کے سامنے تھا۔ ویسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مسافر کی شام کتنی اداس اور اندوہناک ہوتی ہے۔ بحر ظلمات سے نکل آنے کے بعد یہ فکر دامن گیر تھی کہ رات کہاں بسر کی جائے۔ خدا کی شان کہ تھوڑی ہی دور کے فاصلہ پر عیسائیوں کا ایک کلیسا نظر آیا۔ آبادی کا نشان دیکھتے ہی جان میں جان آئی کہ رات گزارنے کے لئے ایک پناہ گاہ مل گئی تھی۔
قافلہ کی اونٹنی کلیسا کے سامنے پہنچ کر کھڑی ہو گئی۔ سنسان ویرانے میں آدمیوں کی آہٹ پاکر ایک شخص باہر نکلا اور حیرت و تجسس کے ساتھ دریافت کیا ’’آپ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آرہے ہیں؟‘‘۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیا ’’ہم عرب کے تاجر ہیں۔ مکہ، جہاں خدا کا محترم گھر ہے، وہیں ہمارا مسکن ہے، ملک شام جاتے ہوئے غالباً راستہ بھول کر ہم اِدھر نکل آئے ہیں، کلیسا میں رات بسر کرنے کی اجازت چاہتے ہیں‘‘۔
اس شخص نے جواب دیا ’’یہ کلیسا عیسائی مذہب کے ایک بہت بڑے راہب کی عبادت گاہ ہے، ساری دنیا سے اپنا رشتہ منقطع کرکے سو سال سے یہاں یاد الہی میں وہ مصروف ہیں۔ صرف مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ان کے قریب جاسکتا ہوں، میرے سوا کسی کو ان کی خلوت گاہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ مجھے ان کی خدمت میں رہتے ہوئے پچیس سال ہو گئے، ٹھیک ایک شیخ کی طرح انھوں نے ہماری روحانی تربیت کی ہے‘‘۔
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ’’اور جہاں تک رات بسر کرنے کی اجازت کا سوال ہے تو اس کے متعلق کلیسا کی ایک نہایت مشکل شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں رات وہی بسر کرسکتا ہے، جس کے دامنِ زندگی پر گناہوں کی آلائش کا کوئی دھبہ نہ ہو، کیونکہ آج سے چند سال پہلے ایک بدکار شرابی سرشام یہاں بھٹکتا ہوا کہیں سے آگیا اور مسافر سمجھ کر اسے رات بسر کرنے کی اجازت دے دی گئی‘‘۔
اس کی گفتگو تمام ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا ’’لیکن تمہارے شیخ کے پاس کسی کی اندرونی حالت کے جاننے کا کیا ذریعہ ہے؟ کیونکہ کسی بدکار کی پیشانی پر اس کی مجرمانہ زندگی کی فہرست کندہ نہیں ہوتی۔ ایسی حالت میں کلیسا کی اس شرط سے نیکوکار مسافروں کی حق تلفی کا امکان بہت زیادہ بڑھ جائے گا، اس لئے بہتر ہے کہ اس شرط کو منسوخ کرادو یا پھر وہ ذریعہ بتاؤ، جس کی روشنی میں بدکار اور نیکوکار کے درمیان خط امتیاز کھینچا جاسکے‘‘۔
(باقی آئندہ)
ہزار حسن ظن کے باوجود ایک معقول سوال کی زد سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھا جاسکتا، چند ہی جملوں میں ذہن کی بنیاد ہل گئی، بے بسی کی کشمکش میں اس نے جواب دیا ’’میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جب ایک بدکاری انسان کے کردار کی نحوست شیخ کے تئیں محسوس ہو سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک نیکوکار کی روحانی لطافت کے جانچنے کا ان کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو‘‘۔
اس جواب کے بعد حضرت ابوبکر نے فوراً کہا ’’تو پھر جاؤ اپنے شیخ سے میرے متعلق دریافت کرلو، اگر انھیں میرے قیام پر اعتراض نہ ہو تو میں رات کا کچھ وقت کلیسا کے ایک گوشے میں گزارلوں، بیاض سحر نمودار ہوتے ہی یہاں سے کوچ کرجاؤں گا، ورنہ ایک مسافر کے لئے کھلے آسمان کا سایہ کافی ہے‘‘۔
تھوڑی دیر تک پس و پیش کے بعد وہ راہب کے خلوت کدے میں داخل ہوا اور پیکر عجز و نیاز بن کر اسے یہ اطلاع دی کہ ’’ملک عرب کے مکہ نامی ایک شہر سے دو مسافر بھٹکتے ہوئے یہاں آگئے ہیں اور کلیسا میں رات بسر کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ ظاہری طورپر وجاہت کے لحاظ سے ان میں ایک آقا معلوم پڑتا ہے، جب کہ دوسرے کے چہرے سے ایک وفادار غلام کی علامتیں نمایاں ہیں‘‘۔
راہب نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد دریافت کیا ’’کیا وہی مکہ، جو پہاڑیوں کے جھرمٹ میں آباد ہے اور جہاں قدم قدم پر کھجوروں کے جھنڈ نظر آتے ہیں؟‘‘۔ خادم نے جواب دیا ’’میں نے یہ تفصیل نہیں معلوم کی ہے، اگر اجازت ہو تو دوبارہ جاکر دریافت کرلوں‘‘۔ راہب نے پُرتپاک لہجے میں کہا ’’ضرور دریافت کرو اور جسے تم آقا کہہ رہے ہو، اس کا نام بھی معلوم کرتے آؤ‘‘۔
خادم نے حجرے سے باہر نکلتے ہی دریافت کیا ’’یہ معلوم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ جس مکہ کو آپ نے اپنا مسکن بتایا ہے، کیا وہ پہاڑیوں کے جھرمٹ میں آباد ہے اور کیا جگہ جگہ وہاں کھجوروں کے جھنڈ کھڑے ہیں؟‘‘۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیا ’’ہاں! یہ دونوں باتیں واقعہ کے مطابق ہیں‘‘۔ پھر وقفہ کا سانس لیتے ہوئے اس نے دوبارہ سوال کیا ’’زحمت نہ ہو تو اپنے مبارک نام سے روشناس کیجئے‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’مجھے ابوبکر کہتے ہیں‘‘۔
الٹے پاؤں راہب کے سامنے حاضر ہوکر خادم نے اطلاع دی کہ ’’مکہ کے بارے میں جو باتیں آپ نے دریافت کی ہیں، وہ صحیح ہیں اور وہ اپنا نام ابوبکر بتاتا ہے‘‘۔ ابوبکر کا نام سن کر راہب کی پیشانی پر کچھ لکیریں ابھر آئیں، جیسے حافظہ پر زور دے کر وہ کوئی بات سوچنے لگا ہو۔ تھوڑی دیر تک محویت خیال کی یہی کیفیت رہی، اس کے بعد اچانک کھڑا ہو گیا اور مقفل صندوق میں سے بوسیدہ کاغذات کا ایک دفتر نکالا اور مضطربانہ کیفیت میں اسے اُلٹنے پلٹنے لگا۔ ورق اُلٹتے اُلٹتے ایک صفحہ پر نظر جم گئی اور اچانک چہرے کے اتار چڑھاؤ سے ایسا محسوس ہوا، جیسے کسی گمشدہ حقیقت کا سراغ مل گیا ہو‘‘۔ فوراً ہی بیتابی کے ساتھ وفادار خادم کو آواز دی اور کہا ’’مکہ کے اس سوداگر سے اتنی بات اور دریافت کرلو کہ اس کے باپ کا نام کیا ہے؟‘‘۔ خادم نے پھر آکر دریافت کیا ’’بار دیگر آپ کو اس امر کی تکلیف دیتے ہوئے شرمندہ ہوں کہ آپ کے والد بزرگوار کا نام کیا ہے؟‘‘۔ حضرت ابوبکر نے متحیر نگاہوں سے اسے دیکھا اور ایک لفظ میں جواب دے دیا ’’ابوقحافہ‘‘۔