کالا دھن ‘ ایک جملہ ہی ثابت ہوا

   

مرکز کی نریندرمودی حکومت کئی اہم ترین انتخابی وعدوں کو محض ایک انتخابی جملہ کی طرح فراموش کر رہی ہے ۔ جس طرح نریندرمودی نے انتخابی مہم کے دوران عوام کو یہ لالچ دیا تھا کہ ملک کا جو کالا دھن بیرونی ملکوںمیںچھپایا گیا ہے اگر وہی واپس لالیا جاتا ہے تو ہر غریب شہری کے اکاونٹ میںپندرہ تا بیس لاکھ روپئے آسکتے ہیں۔ جب انتخابات میںکامیابی ملی اور بی جے پی نے مرکز میںحکومت تشکیل دیدی اور کچھ وقت گذر گیا تب اس تعلق سے میڈیا میں اور اپوزیشن کی جانب سے سوالات کئے جانے لگے تووزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ یہ محض ایک انتخابی جملہ تھا اور سبھی کو واقفیت ہے کہ اس طرح کے کسی کے اکاونٹ میں کوئی پیسے نہیںآتے ۔ اس کے بعد سے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو مسلسل تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے جملوںکی حکومت اور یو ٹرن حکومت قرار دیا جانے لگا تھا ۔ کئی اہم ترین انتخابی وعدوں کو جس طرح بی جے پی نے فراموش کردیا تھا اسی طرح کئی اہمیت کے حامل مسائل پر حکومت نے اپنے موقف میں یکسر تبدیلی اختیار کی ۔ مودی حکومت کا ایک اہم ترین وعدہ یہ بھی تھا کہ جو کالا دھن بیرونی ممالک میں ہندوستانیوں کا رکھا ہوا ہے اسے واپس لایا جائیگا ۔ اب حکومت نے لوک سبھا میں یہ بیان دیا ہے کہ حکومت کو یہ پتہ تک نہیںہے کہ سوئیز بینکوں میں ہندوستانیوںکا کتنا پیسہ رکھا ہوا ہے ۔ اس پیسے کو واپس لانا تو دور کی بات ہے حکومت اس پیسے کی تفصیل سے تک واقف نہیں ہے ۔ یہ حکومت کی ناکامی بھی کہی جاسکتی ہے یا پھر حکومت کی کارپوریٹ نوازی بھی ہوسکتی ہے ۔ جتنا کالا دھن بیرونی ممالک میں رکھا ہوا ہے اس تعلق سے عام تاثر یہی ہے کہ ان میںبیشتر وہ لوگ ہیں جو حکومت سے قربت رکھتے ہیں۔ حکومت کے حاشیہ بردار ہیں اور حکومت انہیں ہی نفع پہونچانے میں مصروف ہے ۔کالا دھن واپس لانے کے معاملے میں بی جے پی نے اقتدار ملتے ہی خاموشی اختیار کرلی ۔ یہ خاموشی اتنی طویل ہوگئی کہ سات سال گذر چکے ہیں لیکن حکومت کو اس تعلق سے کچھ تفصیل تک معلوم نہیں ہے ۔ یہ یا تو حکومت کی حد درجہ ناکامی ہے یا پھر مجرمانہ غفلت و لاپرواہی ہی ہے ۔
مختلف ذرائع اور میڈیا کی جو رپورٹس ہیں وہ حکومت کے دعووں کی نفی بھی کرتی ہیں۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہر سال بیرونی ممالک میں ہندوستان کا جو کالا دھن پہونچ رہا ہے اس میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر سال ہزاروں کروڑ روپئے کا کالا دھن بیرونی ممالک کو روانہ کیا جا رہا ہے اور اس میںہر سال کئی گنا اضافہ درج ہوتا جا رہا ہے ۔ نریندرموددی کی حکومت بیرونی ممالک میں پہلے سے موجود کالا دھن تو واپس نہیں لارہی ہے یا لانا نہیں چاہتی یا لانے کی اہلیت نہیں رکھتی یہ الگ بات ہے لیکن زیادہ قابل تشویش بات یہ ہے کہ خود مودی حکومت میں ہر سال ہزاروں کروڑ روپیہ ہندوستانیوں کا لوٹ کر بیرونی ممالک کی بینکوں میں رکھا جا رہا ہے ۔ ہر سال اس کالے دھن میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ٹیکس کی چوری کرنے والے دھڑلے سے بیرونی ممالک کو پیسہ بھیجنے اور وہاں ذخیرہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ملک میںانتہائی مشکل ترین حالات اورسست روی کا شکار معیشت کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں کروڑ روپئے ملک سے باہر کس طرح سے جا رہے ہیں۔ چند مٹھی بھر لوگ اتنے ہزاروں کروڑ روپئے حاصل کس طرح کر رہے ہیں اور اس کی روک تھام کرنے میںحکومت کیوں ناکام ہے ۔ کیا حکومت کی نا اہل ہے یا پھر حکومت ان عناصر کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے ملک کے عوام کو گمراہ کر رہی ہے ۔ بی جے پی کا یہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل انتخابی وعدہ تھا لیکن اس وعدہ کو اس طرح فراموش کردیا گیا جس طرح گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔ یہ عوام کے ساتھ دھوکہ اورفریب ہے ۔
نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ ’’ نہ کھائیںگے اورنہ کھانے دیں گے ‘‘ یہ محض ایک فریب ثابت ہوا ہے ۔ جس طرح دوسرے تقریبا تمام وعدے انتخابی جملے میں تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں اسی طرح کالا دھن واپس لانے کا وعدہ بھی محض ایک جملہ ثابت ہوا ہے اور حکومت خود پارلیمنٹ میں اعتراف کر رہی ہے کہ اسے بیرونی ممالک میں کالے دھن کی مقدار کا تک پتہ نہیں ہے ۔ حکومت کو اس معاملے میں اپنی سنجیدگی کا ثبوت دینے اور اپنے وعدے کی تکمیل کیلئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ یقینی طور پر یہ ہندوستان کا پیسہ ہے اور اسے واپس لانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کی جانی چاہئے ۔