کل کوئی اور نظر آئے گا اس مسند پر

   

رشیدالدین
لوک سبھا انتخابات کے تین مراحل کی رائے دہی کا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ تین مراحل میں 300 سے زائد نشستوں پر امیدواروں کی سیاسی قسمت کا فیصلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بند ہوگیا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عام انتخابات کا اہم مرحلہ گزر گیا اور فیصلہ کن علاقوں نشستوں کا احاطہ ہوچکا ہے ۔ سیاسی اور انتخابی تجزیہ نگاروں کے مطابق تین مرحلوں کے چناؤ میں رائے دہندوں نے ملک کی آئندہ حکومت کی راہ کا تعین کردیا ہے اور باقی چار مرحلوں میں علاقائی جماعتوں کے زیر اثر حلقے ہیں۔ کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہ ملنے کی صورت میں علاقائی جماعتوں کی تائید کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ آخری مرحلوں میں علاقائی پارٹیاں بہتر مظاہرہ کی کوشش کریں گی تاکہ حکومت سازی میں بادشاہ گر کا رول ادا کریں۔ نریندر مودی حکومت کی 2014 ء میں تشکیل سے قبل ملک میں مخلوط حکومتوں کا دور رہا ۔ این ڈی اے پھر یو پی اے کا 10 سالہ دور۔ نریندر مودی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ، لہذا تشکیل حکومت کیلئے کسی حلیف جماعت پر انحصار کرنا نہیں پڑا اور نہ پانچ سالہ میعاد کے دوران کسی حلیف نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی ۔ پانچ برسوں میں ایک بھی بحران پیدا نہیں ہوا ۔ اس کی اہم وجہ واضح اکثریت تھی۔ بعض حلیف جماعتیں ناراض ہوکر بھی اتحاد سے علحدگی کی ہمت نہیں کرسکیں۔ عوام نے جن امیدوں کے ساتھ مودی حکومت کو اکثریت عطا کی تھی، ان کے اچھے دن کے خواب بکھر گئے ۔ نریندر مودی نے اس طرح عوام اور حلیف جماعتوں کو مایوس کیا ہے،

اس کا راست اثر ووٹ بینک پر پڑے گا۔ عوام نے ترقی اور خوشحالی کے نعروں پر بھروسہ کیا تھا لیکن اب وہ دوبارہ جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی اور امیت شاہ نے الیکشن ایجنڈہ کو ترقی سے فرقہ پرستی کی سمت موڑ دیا۔ تینوں مرحلوں کی رائے دہی کے رجحانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک معلق پارلیمنٹ کی سمت پیش قدمی کر رہا ہے ۔ بی جے پی کو 2014 ء کی طرح واضح اکثریت نہیں ملے گی۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی کے موقف میں بہتری ضرور آئے گی لیکن اکثریت کا حصول اس کیلئے بھی آسان نہیں ہے ۔ ان حالات میں واحد اکثریتی جماعت جو بھی ہوگی، اقتدار اس کے قریب ہوگا۔ سنگل لارجیسٹ پارٹی کے ساتھ علاقائی جماعتوںکا اتحاد ممکن ہے۔ بعض علاقائی پارٹیاں تیسرے محاذ کی حکومت کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ علاقائی جماعتوں کو کانگریس یا بی جے پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ وہ اپنی شرائط پر کسی ایک اتحاد میں شامل یا پھر باہر سے تائید کرسکتے ہیں۔ حکومت بھلے کسی کی ہو مخلوط حکومتوں کی روایت کا احیاء ہوگا۔ نریندر مودی حکومت کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھیں تو علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کا جھکاؤ کانگریس کی طرف دکھائی دے رہا ہے ۔ کانگریس نے ماقبل انتخابات مخالف مودی سیکولر پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش ضرور کی لیکن یہ کوششیں اتحاد کی شکل اختیار نہ کرسکیں۔ ایس پی ، بی ایس پی ، ترنمول کانگریس ، عام آدمی پارٹی اور تلگو دیشم جیسی جماعتیں کانگریس کے ساتھ پلیٹ فارم پر تو دیکھی گئیں لیکن ان کی ریاستوں میں کانگریس سے اتحاد نہیں کیا۔ سیکولرازم کے تحفظ کیلئے بلند بانگ دعوے کرنے والی بائیں بازو کی جماعتیں کانگریس کے ساتھ ماقبل انتخابات اتحاد سے کترا رہی ہے ۔ گزشتہ انتخابات میں مخالف بی جے پی ووٹ کی تقسیم کا خمیازہ سیکولر پارٹیوں کو بھگتنا پڑا تھا۔ اگر اس بار پہلے سے منصوبہ بندی ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی لیکن افسوس بعض جماعتوں کے نزدیک پارٹی مفادات قومی مفادات سے زیادہ اہمیت کے حامل ہے۔

اترپردیش میں ایس پی اور بی ایس پی نے کانگریس سے انتخابی مفاہمت نہیں کی لیکن نتائج کے بعد مرکز میں غیر بی جے پی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آئے تو کانگریس ان کے لئے فطری حلیف ہوگی، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ کرناٹک ، ٹاملناڈو ، اڈیشہ اور مغربی بنگال کی علاقائی پارٹیوں کو کانگریس کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونا پڑے گا۔ بعض علاقائی جماعتیں دیوار کی بلی بنی بیٹھی ہیں اور بی جے پی کے ساتھ جانے کیلئے بے چین ہیں۔ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق ان کا موقف غیر واضح ہے۔ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ ایسی پارٹیوں کو کوئی منہ لگانے تیار نہیں اور انہیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے گا۔ بعض قائدین کا عجیب حال ہے۔ الیکشن لڑے بغیر ہی وزارت عظمی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان میں مایاوتی سرفہرست ہیں ۔ ویسے بھی خواہشات رکھنے یا پھر خواب دیکھنے پر کوئی خرچ اور نہ کوئی پابندی ہے۔ اس معاملہ میں ہندوستان کا جمہوری نظام کشادہ ذہن اور وسیع القلب ہے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر 16 ارکان پارلیمنٹ کی امید کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے خواب اپنے فارم ہاؤز سے دیکھ رہے ہیں۔ انٹر نتائج میں دھاندلیوں پر 20 طلبہ کی جان چلی گئی لیکن ان کے کان پر جونک نہیں رینگی تاہم وزارت عظمیٰ کی امید لگائے بیٹھے ہیں جیسے کہ یہ ان کی آخری خواہش ہو۔ فارم ہاؤز سے حکومت چلانے والوں کو دہلی میں بھی فارم ہاؤز تیار کرنا پڑے گا۔ صرف 16 ارکان پارلیمنٹ رکھ کر باقی 270 ارکان کہاں سے لائیں گے ؟ تلنگانہ اسمبلی کی طرح کانگریس ارکان کو کیا انحراف کی ترغیب دی جائے گی؟ الغرض معلق پارلیمنٹ کی صورت میں وزارت عظمیٰ کے کئی دعویدار پیدا ہوں گے اور ’’ایک انار سو بیمار‘‘ والا معاملہ ہوسکتا ہے ۔

انتخابی ماحول کے دوران ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی کے سلسلہ میں ایک اچھی خبر آئی ہے ۔ سنٹرل اڈمنسٹریٹیو ٹریبونل نے کرناٹک کے آئی اے ایس عہدیدار محمد محسن کی معطلی پر حکم التواء جاری کرتے ہوئے انہیں بحال کردیا ہے ۔ انتخابی ڈیوٹی پر مبصر کی حیثیت سے محمد محسن نے اڈیشہ میں وزیراعظم نریندر مودی کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی لی تھی ۔ الیکشن کمیشن نے اس اقدام کو عہدیداروں کے لئے طئے شدہ قواعد کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معطل کردیا تھا۔ ایس پی جی سیکوریٹی کے حامل اہم شخصیتوں کی نقل و حرکت کے سلسلہ میں الیکشن کمیشن نے بعض ہدایات جاری کیں تاکہ اہم شخصیتوں کو سفر کے دوران دشواری نہ ہو۔ کمیشن نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ اہم شخصیتوں کی گاڑیوں کی تلاشی نہ لی جائے ۔ وزیراعظم ہوں یا کوئی اور ہر کوئی قانون کے دائرہ میں آتا ہے ۔ وزیراعظم فی الوقت بی جے پی کے امیدوار بھی ہیں اور انتخابی ضابطہ اخلاق ان پر نافذ ہوتا ہے ۔ ایک مسلمان عہدیدار کی فرض شناسی کا صلہ اسے معطلی کی صورت میں دیا گیا۔ اگر محمد محسن کی جگہ کوئی اور عہدیدار ہوتا تو شائد الیکشن کمیشن اس قدر عجلت میں کارروائی نہ کرتا ۔ دراصل ملک میں فرقہ پرست طاقتوں نے دستوری اداروں میں بھی کچھ ایسا زہر گھول دیا ہے کہ مسلم عہدیدار کی کسی بھی کارروائی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ کچھ یہی معاملہ آئی اے ایس عہدیدار محمد محسن کے ساتھ ہوا۔ الیکشن آبزرور کی حیثیت سے انہوں نے یوں تو کئی قائدین کی گاڑیوں کی تلاشی لی ہوگی لیکن قصور وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی تھا۔ سنٹرل اڈمنسٹریٹیو ٹریبونل نے معطلی پر حکم التواء جاری کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ ملک میں قانون کی بالادستی برقرار ہے اور اقتدار کا دباؤ نہیں چلے گا۔ ہندوستان کی یہ خوبی ہے کہ جب کبھی دستور اور قانون کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ، اس کے تحفظ کے لئے کوئی نہ کوئی ادارہ کھڑا ہوگیا۔ اڈمنسٹریٹیو ٹریبونل ایک آزادانہ اور بااختیار ادارہ ہے۔ الغرض محمد محسن کو انصاف ملا۔ اسی دوران آخری مراحل کی انتخابی مہم کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بی جے پی نے فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کو آگے کردیا ہے۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کی اہم ملزم سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال سے پارٹی امیدوار بناکر بی جے پی نے رائے دہندوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دستور اور قانون کی بالادستی کا عہد کرتے ہوئے حلف لینے والے نریندر مودی نے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی امیدواری کی تائید کی جبکہ عدالت نے ان پر الزامات کو برقرار رکھا ہے۔ بم دھماکے جیسے سنگین الزامات کے باوجود مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والی اس سادھوی کو ٹکٹ دینا بی جے پی کی ذہنیت کا مظہر ہے۔ نریندر مودی کس طرح کانگریس کے قائدین پر مقدمات کے سلسلہ میں انگشت نمائی کرسکتے ہیں۔ ویسے تو بی جے پی کے صدر امیت شاہ گجرات فسادات کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ انتخابی مہم میں راہول گاندھی کے حملوں سے نریندر مودی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ راہول گاندھی نے انتہائی کم عرصہ میں ایک منجھے ہوئے سیاستداں کی طرح انتخابی مہم کی کمان سنبھال لی ہے۔ نریندر مودی جو انتخابی بولیوں کیلئے مشہور تھے، راہول گاندھی نے انہیں مات دیدی ہے ۔ راہول کی بولیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے بی جے پی نے قانونی نوٹسوں اور عدالت کا سہارا لیتے ہوئے راہول کو روکنے کی کوشش کی ہے ۔ کیرالا کے وائیناڈ لوک سبھا حلقہ میں 80 فیصد رائے دہی راہول گاندھی کی مقبولیت کا ثبوت ہے ۔ ویسے بھی امیٹھی میں بی جے پی امیدوار سمرتی ایرانی کو عوامی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ سمرتی ایرانی کی تعلیمی قابلیت اور ڈگری کے بارے میں آج تک سچائی سامنے نہیں آئی ۔ ہر الیکشن میں وہ اپنی نئی ڈگری پیش کر رہی ہیں ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق راہول گاندھی کی محنت ضرور رنگ لائے گی اور مودی زیر قیادت بی جے پی کو 2014 کی طرح اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ انتخابی صورتحال پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
کل کوئی اور نظر آئے گا اس مسند پر
تیرے حصہ میں یہ ہر بار نہیں آئے گی