کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

   

باری تعالی کا ارشاد ہے۔ اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی کے ساتھ تھام لو، اور اپنے درمیان افتراق مت پیدا کر لو، اللہ سبحانہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم آپس میں دشمن تھے، تو اس پاک پروردگار نے تمہارے قلوب میں محبت ڈال دی، اور تم اس کی رحمت سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے، تم آگ کے گڑھے کے دہانے پر پہونچ گئے تھے تو اس نے تم کو اس سے بحفاظت نکال لیا، اللہ سبحانہ اسی طرح اپنی نشانیاں تمہارے لئے بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پا جائو ، (۳؍۴)۔

اس آیت پاک میں اعتصام بحبل اللہ فرمایا یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما جائے، اعتصام بحبل اللہ سے جو باتیں مراد لی گئی ہیں وہ کئی ہیں ان میں سے ایک اس کی مراد قرآن پاک ہے یعنی قرآن پاک کو مضبوطی سے تھام لیا جائے ، اس سے پہلے والی آیت میں تقویٰ اختیار کرنے اور مسلم رہتے ہوئے موت کا استقبال کرنے کی تلقین کی گئی ہے، تقویٰ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا ایسے اصول ہیں جن پر عمل سے اتحاد قائم ہو سکتا ہے ۔ ’’ وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘‘ سے انتشار و اختلاف سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے، اس کی وجہ سے آپس میں فرقہ بندی پیدا ہوتی ہے، ان مذکورہ زرین اصولوں سے انحراف فرقہ بندی پیدا کرتا ہے، زندگی کی پرخار وادیوں میں چلتے ہوئے تقویٰ اختیار کرکے اپنے دامن کو دنیا کی آلودگیوں سے بچاتے ہوئے آگے نکل جانا کامیابی کی دلیل ہے ، کسی قوم و ملت کیلئے ایک با وقار زندگی گذارنے اور معاشرہ کو پرامن بنائے رکھنے میں اس میں رہنے والے افراد کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، جب تک وہ آپس میں متحد و متفق نہ ہوں اس وقت تک معاشرہ پرامن نہیں ہوسکتا، ملت کے درمیان دائمی و پائدار اتحاد کیلئے ان زرین اصولوں کو نشان راہ بنانے کی ضرورت ہے جس کو اللہ سبحانہ تعالی نے اسلام، تقویٰ اور اعتصام بحبل اللہ سے بیان فرمایا ہے ۔ اس دنیا میں جینے کو تو سبھی جی لیتے ہیں لیکن وہ جینا کس کام کا جو بے مقصد ہو اور حق سبحانہ تعالیٰ کے دئے گئے زرین اصولوں سے انحراف کے ساتھ ہو ، جینا حقیقت میں وہی جینا ہے جو مرضیات رب کا تابع ہو اور ان اصول و قوانین کی روشنی میں ہو جو خالق کائنات نے دئے ہیں، اور وہ سارے اصول قرآن پاک کے ذریعہ انسانوں کو دیدئے گئے ہیں، انسانوں کیلئے یہی بات وجہ سکون ہو سکتی ہے کہ وہ خالق کائنات کے دئے گئے حکیمانہ اصولوں پر عمل پیرا ہو جائیں ، ظاہر ہے اتحاد و اتفاق بھی اسی کا حصہ ہے ، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی اسی قرآن پاک کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینے سے امت مسلمہ کامیاب ہو سکتی ہے، انفرادی زندگی میں تقویٰ ،موت اور آخرت کی فکر اور اس کیلئے مقدور بھر سعی وجہد پھر انفرادی ہو یا اجتماعی زندگی اس میں اعتصام بحبل اللہ کی وجہہ مسلمانوں کی بکھری ہوئی طاقت اسی قرآن کی برکت سے پھر سے یکجا ہو کر مستحکم ہو سکتی ہے، اتحاد و اتفاق کے اس مثبت پہلو کو واضح کرنے کے بعد ولا تفرقوا کے ذریعہ سلبی پہلو کو ایجابی رخ دیا گیا ہے، یعنی نفی کے ذریعہ مثبت پیغام دیا گیا ہے کہ آپس میں انتشار نہ پیدا کر لیں انتشار اتحاد کی ضد ہے، اس لئے اتحاد انتشار کی نفی کرتا ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔ان کی طرح مت بن جائو جنہوں نے واضح ،روشن ،کھلی نشانیاں اور براہین آجانے کے بعد بھی افتراق واختلاف پیدا کرلیاان کیلئے بڑا عذاب ہے ۔(۳/۶)
س آیت پاک میں اشارہ ہے ۔اہل کتاب یعنی یہود ونصاری کی طرف جنہوں نے واضح ،صریح وصاف آسمانی ہدایات پیغمبر کے ذریعہ ان تک پہونچ جانے کے باوجود خواہشات نفس اور توہمات کے پیروکار بنے رہے ،شریعت اسلامی کے اصول واحکام میں اختلاف کربیٹھے ،امت مسلمہ کویہاں اس راہ کے اختیار کرنے سے منع کیا جارہا ہے ،اہل کتاب کی عبرت ناک داستان سنائی جارہی ہے کہ خواہش نفس کو اختیار کرکے اختلاف کرنے کی وجہہ کس طرح وہ اپنے برے انجام کو پہونچے ،امت مسلمہ کو اس بات کی یاد دہانی کروائی جارہی ہے کہ وہ ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے اندر انتشار نہ پیدا کرلے اور اپنے آپسی اتحاد واتفاق کو پارہ پارہ نہ کرلے ۔یہاں تفرق سے اس امت کو منع کیا گیا ہے کیونکہ تفرق واختلاف وہ بری بلا ہے جس نے اہل کتاب کی لٹیا ڈبوئی ہے ، اس میں سامان عبرت ہے امت مرحومہ کیلئے۔یہ امت اگر اس مرض کا شکار ہوگئی تو اس کا انجام بھی یہود ونصاری کی طرح بربادی ہے ۔

پچھلی آیت میں اعتصام بحبل اللہ کا جو حکم حق سبحانہ وتعالی نے دیا ہے اس حکم کا اتمام وَّلَا تَفَرَّقُوْاوالی آیت پاک ہے ، یعنی امت مسلمہ کواختلاف وانتشار سے اپنا دامن بچانے کی اور اعتصام بحبل اللہ کی دعوت دی جاکر کامیابی کی کنجی ہاتھ میں دی گئی ہے جو امت میں اتحاد واتفاق کو برقرار رکھ سکتی ہے ،اور ان کی اجتماعیت کی شیرازہ بندی کرسکتی ہے اور پوری ملت انگنت جسم کے ساتھ یک جان بن سکتی ہے ۔معاشرہ میں رہنے بسنے والے جب قرآنی ہدایات کے بجائے نفسانی خواہشات کو اپنالیتے ہیں تو اختلاف و انتشار کا دروازہ کھل جاتا ہے، اس لئے قرآن پاک میں اس کی مخالفت کی گئی ہے اور خواہش نفس کی پیروی سے منع کیا گیا ہے۔ وَلَا تَتَّبِــعِ الْـهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰه ۔ (ص/۲۶) خواہش نفس کی اتباع مت کرو کہ وہ تم کو راہ حق سے ہٹادے گی ۔اس وقت اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آپسی اختلاف کے باوجود اس عنوان پر متفق ہوچکی ہیں اور روز بروز ان کی سازشوں کا جال پھیلتا جارہا ہے ،پھر بھی مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں، اس وقت نوشتہ دیوار پڑھ لینے کی ضرورت ہے ،اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کو ناکام کرنے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ مسلمان آپسی اختلافات کوبھول بھال کر پھر سے ایک جسد واحد بن جائیں ،اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط بن کر مخالف سمت سے آنے والے تیروں کو سہارنے کی طاقت پیدا کرلیں،لیکن صورتحال یہ ہے کہ امت مسلمہ عقل کے ناخن لینے تیار نہیں ہے ،اپنے اندر اتحاد پیدا کرنے کے بجائے اختلاف وافتراق کو مزید بڑھاوا دیتے ہوئے دشمنان اسلام کی ناپاک کو ششوں کو بارآور کررہی ہے ۔کیا بات ہے کہ ساری دنیا مذہب ،تہذیب ،زبان اور طبقات کے صدہا اختلافات کے باوجود باطل پر رہتے ہوئے اسلام کے خلاف متفق ہے، لیکن مسلمان جن کا اللہ(جل شانہ) ایک،رسول (ﷺ) ایک ،کتاب(قرآن) ایک اور وہ کعبۃ اللہ ایک ،جس کی طرف رخ کرکے سارے مسلمان نماز جیسی اہم عبادت ادا کرتے ہیں اور جس کعبہ کا سارے مکتب ومسلک کے مسلمان سب مل کر اس کا طواف کرتے ہیں ۔ یہ سب جب ایک ہیں تو امت مسلمہ ایک کیوں نہیں بن سکتی۔

اللہ سبحانہ کے اس ارشاد کو یاد رکھنے کی سخت ضرورت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ:’’( اے ایمان والو) اللہ کی اور اللہ کے رسولﷺ کی اتباع وپیروی کرو اور آپس میں نزاع واختلاف پیدا مت کرلو ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ‘‘۔(۸/۴۶)یعنی تم ناکام ونامراد بنادیئے جائوگے ،نکبت وذلت تمہارا مقدر بن جائے گی،اختلاف کی وجہ دشمن تم پر غلبہ پالیں گے،اب وہ وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اولین فرصت میں اپنے اختلافات کو فراموش کرکے پھر سے ایک بن جائے اور اعتصام بحبل اللہ پر عمل کرکے دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام بنائے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہےکہ عوام سادہ لوح ہوتے ہیںملت کےبعض رہنما ءعوام کو خانوں میں بانٹنے کی مہم میں لگے ہوئے ہیںان کی غیر دانشمندانہ فکر وحدت ملت کو پارہ پارہ کر رہی ہے‘ کس قدر افسوس کی بات ہےکہ ہمارے سیکولر ملک کےحکمراں اور ان کے زیر اثر نا سمجھ انسانیت و اخلاق اور جمہوری تقاضوں سے نا آشنا بعض شر پسند عناصر اسلام اور مسلم دشمنی کا کردارنبھارہےہیں‘ملکی سیاست کی گاڑی جمہوریت کی پٹری سےاتر گئی ہےملک فاشسٹ طاقتوں کے ہاتھوں کھلونابنتا جارہا ہے‘اقلیتوں کے خلاف نفرت کی فضاء بنائی جارہی ہےمسلمانوںکی زندگی اجیرن بنائی جارہی ہےاپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئےجینے کی راہ تنگ کی جارہی ہے‘عالمی احوال اوربھی ناگفتہ بہ ہیں ایسے میںمسلمان بلکہ مسلمانوں کے رہنماؤںماہرین کو عالمی و ملکی ناخوشگوار احوال کے تناظر میں اپنے اختلافات و مفادات سے اونچا اٹھ کر الفت و محبت کی ڈور میں بندھ جانا چاہئےاور عوام کو اپنے کردار و عمل سے یہی پیغام دینا چاہئے۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے برسوں پہلےامت کو ایک درد مندانہ پیغام دیا ہے جو آج بھی امت کے رہنما ؤںاور عوام کیلئےنشان راہ ہے۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک