گجرات میں بی جے پی کی مشکلات

   

وزیراعظم نریندرمودی اوروزیرداخلہ امیت شاہ کی آبائی ریاست گجرات میں انتخابی عمل تیز ہوتاجارہا ہے ۔ برسر اقتدار بی جے پی ‘ اپوزیشن کانگریس اور دیگر جماعتوں کی جانب سے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ بڑی حد تک امیدواروں کا اعلان ہوچکا ہے اور چند نشستوں سے امیدواروں کی نامزدگی باقی ہے ۔ گجرات میں بی جے پی گذشتہ 27 سال سے اقتدار میں ہے اور وہ اس بار بھی اپنے اقتدار کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ۔ دوسری جانب کانگریس ریاست میں اقتدار پر واپسی کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ کانگریس کیلئے اپنی مشکلات موجود ہیں تو وہیں بی جے پی کیلئے بھی داخلی اختلافات اور انتشار کی کیفیت مسائل اور مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔ بی جے پی نے گذشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی پوری طاقت جھونک دی تھی اور مقابلہ کیا تھا تاہم وہ بمشکل تمام ہی اپنے اقتدار کو برقرار رکھ پائی تھی ۔ اس نے 150 سے زائد نشستوں پر کامیابی کا دعوی کیا تھا لیکن وہ 100 کے ہندسے تک بھی رسائی حاصل نہیں کرپائی تھی ۔ کانگریس نے کانٹے کی ٹکر دیتے ہوئے مقابلہ کیا تھا اور چند مفاد پرستوں اور باغیوں کی سودے بازیوں کی وجہ سے کانگریس گجرات میں بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں کامیاب نہیںہو پائی تھی ۔ اس بار ریاست کی سیاست میں عام آدمی پارٹی بھی قسمت آزمائی کر رہی ہے اور اس نے بھی تمام حلقوں سے مقابلہ کا اعلان کیا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی آمد سے ریاست کے سیاسی منظر نامہ پر کتنے اثرات مرتب ہونگے یہ تو کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن بی جے پی کیلئے داخلی اختلافات اور ناراضگیوں اور بغاوت کی وجہ سے مشکلات پیدا ہونے لگی ہیں۔ بی جے پی ان اختلافات اور ناراضگیوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اسے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے ۔ اس بار بی جے پی کی جانب سے باغیوں کے خلاف کوئی سخت موقف اختیار کرنے سے گریز کرتے ہوئے انہیںمنانے کیلئے نرم رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کیلئے یہ اختلافات اور بغاوتیں کس حد تک مضر یا نقصان کا باعث ہوسکتی ہیں۔
چونکہ یہ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی آبائی ریاست ہے اس لئے اگر یہاں بی جے پی کو شکست ہوتی ہے تو اس کے قومی سطح پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات کیلئے بھی اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی گجرات میں کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ باغیوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی بجائے ان کو سمجھانے اور منانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ امیت شاہ بھی اتوار سے گجرات میں کیمپ کئے ہوئے ہیں اور وہ بھی کچھ ریاستی قائدین کو ذمہ داریاں سونپتے ہوئے ان باغیوں کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی کے ہیڈ کوارٹر اور دوسرے علاقائی و ضلعی دفاتر پر ٹکٹوں کے تقسیم کے خلاف پارٹی کارکنوں اور ارکان اسمبلی کے حامیوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔ بی جے پی نے اب تک جن امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے اس میں جملہ 38 ارکان اسمبلی کو ٹکٹ سے محروم کردیا گیا ہے اور یہاں نئے چہرے متعارف کروائے گئے ہیں۔ بی جے پی نے کئی سینئر قائدین کو انتخابی دوڑ سے باہر کردیا ہے ۔ ان قائدین کے حامی اور ساتھی پارٹی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیںاور کچھ قائدین کی جانب سے بحیثیت آزاد امیدوار مقابلہ کا اعلان بھی کردیا گیا ہے ۔ یہی وہ صورتحال جس میں بی جے پی کے ووٹ تقسیم ہوسکتے ہیں اور کانگریس پارٹی اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔ اسی کو دیکھتے ہوئے بی جے پی باغیوں پر سختی کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہے ۔
گذشتہ 27 برس سے اقتدار پر رہنے کے باوجود بی جے پی کو ریاست میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ مشکلات خود پارٹی کے قائدین اور ارکان اسمبلی سے پہونچی ہیں۔ یہ تاثر بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ جب پارٹی اپنی صفوں میں خود اطمینان پیدا نہیں کر پا رہی ہے تو وہ انتخابی مہم کے دوران عوام کو کس طرح سے مطمئن کر پائے گی ؟ ۔ اس کے علاوہ دوسری پارٹیوں میں بغاوت یا اختلافات اتنی شدت کے ساتھ نہیں ابھرے ہیں جتنے بی جے پی میںہیں۔ عام آدمی پارٹی کو بھی کچھ حد تک ناراضگیوں کا سامنا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کے داخلی اختلافات اور بغاوتوں کے اثرات انتخابات پر کس حد تک اثر انداز ہونگے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔