گیا وقت پھر لوٹ آیا نہیں

   

وقت اور زمانہ اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے، اس لئے اکابر امت ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے ۔ ہروقت، ہر گھڑی، ہر آن، ہر لحظہ اور ہر ساعت یاد الہی میں مشغول رہتے۔ جو وقت ہم فضول اور لایعنی امور میں ضائع کرتے ہیں، اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ ہم نے کتنی بڑی دولت کھوئی ہے تو زندگی بھر اس کی تلافی کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ بزرگان دین اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے کہا: سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ‘‘ (اللہ تعالیٰ کی ذات پاک و منزہ ہے اور وہ تمام تعریفوں کے ساتھ اعلیٰ و ارفع ہے) اس کے لئے اس ذکر کے عوض جنت میں ایک کھجور کا درخت بویا جاتا ہے‘‘ (الحدیث بروایت حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ، ترمذی شریف کتاب الدعوات) پس جس شخص نے اپنی ایک گھڑی کو ضائع کیا، وہ درحقیقت جنت میں ایک کھجور کے درخت کو بونے سے محروم ہو گیا۔ ہم اپنے دن رات خواب غفلت میں گزارتے ہیں، کس قدر ہم اجروثواب اور رحمتوں سے دور و محروم ہو رہے ہیں اور گناہوں میں اوقات صرف ہونے کی بناء نامہ اعمال میں معصیت و گناہ کی تعداد ہر وقت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک عربی شاعر نے اس بات کا اظہار اپنے عربی شعر میں بہت اچھے انداز میں کیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے اور نماز اس کی موت تک مؤخر کی جاتی ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس نومولود کی حیات بالکل مختصر ہے اور اس کے پاس اتنا ہی وقت ہے، جتنا کہ اذان اور نماز کے درمیان ہوا کرتی ہے۔ وہ چاہے کتنی ہی طویل عمر پائے، آخر وقت میں وہ یہی محسوس کرے گا کہ وہ ابھی پیدا ہوا اور موت کے کنارے پہنچ گیا، جس طرح ابھی اذان ہوئی اور نماز قائم ہو گئی‘‘۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے کہ ’’میں جوانی کو صرف ایک ہی چیز سے تشبیہ دیتا ہوں کہ میری آستین میں کچھ تھا، جو گرگیا‘‘۔ حفصہ بنت سیرین جو کہ جلیل القدر تابعیہ ہیں، فرماتی ہیں: ’’اے نوجوانو! تم جوانی کی قدر کرو، کیونکہ میں نے عمل کو صرف اور صرف جوانی میں پایا ہے‘‘۔ (تہذیب التہذیب، جلد۱۲، صفحہ۴۰۹)
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’المجموع‘‘ کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں: ’’طالب علم کے لئے سزاوار ہے کہ علم کی تحصیل کو غنیمت جانے، جب کہ وہ فارغ البال اور چاق و چوبند ہو، نوجوان اور بدن کی طاقت و قوت سے آراستہ ہو، پراگندگی اور مصروفیات سے دور ہو، عوارض و موانع لاحق ہونے سے قبل علم حاصل کرنا چاہئے‘‘۔ حضرت ابوالفرح ابن الجوزی فقہ حنبلی کے بڑے درجہ کے عالم گزرے ہیں، ان کی ولادت ۵۰۸ھ میں ہوئی اور ۵۹۷ھ میں وفات پائے۔ ۸۹برس حیات رہے۔ انھوں نے امت کے لئے بیش بہا تصانیف چھوڑی ہیں، جن کی تعداد پانچ سو جلدوں سے متجاوز ہے۔ آپ اپنی کتاب ’’صید الخاطر‘‘ میں حضرت عامر بن عبد قیس جو کہ تابعین میں بڑے عابد و زاہد تھے، کا قول نقل کرتے ہیں کہ جب کسی نے آپ سے بات کرنے کی خواہش کی تو فرمایا: ’’سورج کو تھام لو‘‘ یعنی وہ ایک گھڑی بھی یاد الہٰی و ذکر الہٰی کے علاوہ صرف کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔

حضرت ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کی نہ صرف حفاظت فرماتے، بلکہ اس کی دوسروں کو سختی سے تلقین کرتے۔ اگر آپ سے کوئی ملاقات کے لئے آتا تو نہایت مختصر گفتگو فرماتے اور وہ اس کے باوجود بیٹھا رہتا تو وہ اس سے بات کرتے ہوئے کام میں مشغول ہو جاتے اور ایسا کام کرتے، جس میں زیادہ توجہ کی ضرورت درکار نہیں ہوتی۔ مثال کے طورپر کاغذ کاٹتے، قلم چھیلتے، دفتر کے گٹھے باندھتے، تاکہ ان کا وقت ضائع نہ ہو۔ آپ نے ایک رسالہ بنام ’’لفتۃ الکبد فی نصیحۃ الولد‘‘ تحریر فرمایا، جس میں آپ نے اپنے صاحبزادے کو بڑی قیمتی نصیحتیں کی ہیں، منجملہ ان میں یہ ہے کہ ’’اے میرے پیارے بیٹے! زمانہ گھڑیوں و لمحات میں آتا ہے اور گھڑی و لمحات میں سانسیں ہوتی ہیں اور ہر ایک سانس ایک خزانہ ہے، اس لئے اس بات سے بچو کہ کوئی ایک سانس بغیر فائدے کے چلی جائے اور تم قیامت کے دن ایک خزانہ خالی پاؤگے تو نادم و پشیمان ہوگے‘‘۔
امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں اور ابن رجب نے ذیل طبقات الحنابلہ میں آپ کے پوترے حضرت ابوالمظفر کا قول نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے ان انگلیوں سے دو ہزار جلدیں لکھی ہیں۔ جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کی مدت عمر اور آپ کی تصانیف کو شمار کیا گیا تو اندازہ کے مطابق آپ نے ایک دن میں ۹ کاپیاں لکھی ہیں۔ یہ ساری کرشمہ سازی وقت کی حفاظت کا نتیجہ ہے۔

حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’میں ان لوگوں کو جانتا ہوں، جو اپنے کلام کو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک گنا کرتے تھے‘‘۔ ایک مرتبہ چند اصحاب ایک بزرگ کے پاس آئے کہنے لگے کہ ’’ہم نے آپ کو مشغول کردیا ہے‘‘ تو انھوں نے جواب میں فرمایا کہ ’’سچ کہوں تو میں تم لوگوں کے آنے سے پہلے مشغول تھا، آپ کی آمد کی وجہ سے میں نے تلاوت کو ترک کیا ہے‘‘۔ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ، جن کی بزرگی مسلم ہے، ایک مرتبہ ایک عابد آپ کے پاس آئے، دیکھا کہ ایک جماعت آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہے، تو کہنے لگے: ’’اچھا آپ بے روزگاروں کے مرکز بن گئے ہیں‘‘۔ پھر وہ چلے گئے، بیٹھے تک نہیں۔
حضرت امام ابوالوفاء بن عقیل حنبلی دنیائے انسانیت کی ذہین ترین شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ ابن رجب حنبلی نے ذیل طبقات الحنابلہ میں آپ کی تاریخ ولادت ۴۳۱ھ اور تاریخ وفات ۵۱۳ھ نقل کی ہے۔ آپ غیر معمولی ذہین تھے اور آپ کی معلومات کا دائرہ نہایت وسیع تھا۔ آپ کہا کرتے تھے: ’’میرے لئے حلال نہیں کہ میں اپنی عمر کی ایک گھڑی کو ضائع کردوں۔ اگر میری زبان مذاکرہ و مناظرہ اور میری نگاہ مطالعہ سے معطل ہوجائے تو میں اپنی فکر کو کام میں لاؤں گا اور مجھ میں علم کی طلب اسی (۸۰) کے دہے میں بھی ایسی ہی ہے، جیسے بیس برس کی عمر میں تھی‘‘۔