یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا

   

جناب طالب ہاشمی مرسلہ : شیخ عبید بن عثمان العمودی

’’افضل البشر بعدالانبیاء بالتحقیق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ ‘‘یہ وہ اعلان ہے جس پر عہد رسالتؐ سے آج تک کے صلحا و علمائے اُمت مہر تصدیق ثبت کرچکے ہیں اور جسے گزشتہ چودہ سو سالوں سے دنیا بھر کے کروڑوں منبروں پر متواتر دہرایا جارہا ہے ۔ یہ پُرعظمت صدائے حق یقینا ابدالآباد تک بلند ہوتی رہے گی اور ہر آنے والا دن صدیق اکبرؓ کی عظمتِ کردار کو اور بھی نکھارتا جائے گا ؎
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
یہ عظمت یہ شان ، یہ مرتبہ سب کچھ اس لئے تھا کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی ذاتِ گرامی سیدالمرسلین والانبیاء ، دعائے خلیل و نوید مسیحا ، خیرالخلائق ، رحمت دوعالم ، فخرِ موجودات ، صاحبِ قاب قوسین ، ساقیٔ کوثر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے انوارِ سیرت کا پر تَو تھی ۔ وہ محبوبِ رب العالمین کے محبوب تھے اس لئے کہ انھوں نے جان و مال ، اہل و عیال ، عزت و آبرو ، غرض اپنا سب کچھ عشقِ حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم میں فنا کردیا تھا ۔ ان کی عظمت کی شہادت خود رب ذوالجلال والاکرام نے قرآن پاک میں دی۔ آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے بار بار اپنی لسان پاک سے دی اور پھر ان ہزارہا پاکباز اور راست گو ہستیوں نے بھی دی جنھوں نے ایک طرف شفیع المذنبین صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کے جمالِ جہاں آراء سے اپنی آنکھیں روشن کی تھیں اور دوسری طرف سیدنا صدیق اکبرؓ کے انوارِ سیرت ، سبقت فی الاسلام ، تصدیق رسالت، حُبِّ رسولؐ ، شوقِ جہاد ، زہد و تقویٰ، انفاق فی سبیل اﷲ،جودو سخا ، غریب پروری ، مہمان نوازی ، تواضع، حلم ، غیرت دینی ، شجاعت و بسالت، بے خوفی ، شغف عبادت ، رقّت قلب ، عیادتِ مرضیٰ ، عزم و استقامت ، تدّبر و حکمت ، علم و فضل ، امام و اجتہاد اور دوسرے ایمان افروز اوصاف و محاسن کا مشاہدہ کیا تھا ۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی فضیلت کے چار خاص پہلو ہیں :
اول : اُمّت میں مرتبۂ علیا پانا ۔ صدیقیت اسی سے مراد ہے۔
دوم : اول روز سے سرورِ کونین ﷺ کی اعانت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادینا۔
سوم : نبوت کے شروع کئے ہوئے کاموں کو اتمام تک پہنچانا ۔
چہارم : آخرت میں عُلُّوِ مرتبت ۔
اس علو مرتبت کا کسی قدر اندازہ حضور پرنور صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے ان ارشادات مقدسہ سے کیا جاسکتا ہے ۔
۱۔ ہم پر کسی کا احسان نہیں جس کا بدلہ ہم نے نہ دے دیا ہو ۔ مگر ابوبکرؓ کہ ان کا جو احسان ہمارے ذمہ ہے ۔ اس کا بدلہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن دے گا ۔ ( ترمذی) ، ۲۔ اے ابوبکرؓ ! تم غار میں میرے رفیق تھے اور حوضِ کوثر پر بھی میرے رفیق ہوںگے۔ (مشکوٰۃ بحوالہ صیح بخاری)
۳۔ اے ابوبکرؓ ! اُمّت محمدیہ میں تم وہ شخص ہو جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوگے ۔ (سنن ترمذی) ، ۴۔ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکرؓ کے مال نے نفع دیا۔ (صحیحین)
۵۔ اگر میں اﷲ کے سوا کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔ (صحیحین)
۶۔ الٰہی ، ابوبکرؓ کو قیامت کے دن جنت میں میرے ہی درجہ میں جگہ دینا۔ ( مستدرکِ حاکم و سنن ترمذی ) ، ۷۔ ابوبکرؓ ! اﷲ نے تم کو دوزخ سے آزاد کردیا ہے ۔ (حاکم و ابنِ عساکر)
۸۔ اے ابوبکرؓ ! اﷲ تعالیٰ نے تم کو سب سے بڑی خوشنودی سے سربلند فرمایا ۔ عرض کیا ، یا رسول اﷲ سب سے بڑی خوشنودی کیا ہے ، فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ مخلوق کے ساتھ تجلیٔ عام فرمائے گا اور تمہارے واسطے تجلی خاص‘‘۔ (مستدرکِ حاکم)
خاص سیدنا صدیق اکبرؓ کے فضائل میں ایک سو اکیاسی (۱۸۱) احادیث مروی ہیں۔ ان کے علاوہ اٹھاسی حدیثیں ایسی ہیں جن میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی فضیلت مشترکہ طورپر بیان فرمائی گئی ہے ۔ سترہ احادیث ایسی ہیں جن میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کے فضائل مجموعی طورپر بیان ہوئے ہیں۔ چودہ (۱۴) احادیث ایسی ہیں جن میں چاروں خلفائے راشدینؓ کے فضائل مجموعی طورپر مذکور ہیں۔ سولہ (۱۶) حدیثیں ایسی ہیں جن میں خلفائے راشدینؓ کے ساتھ دوسرے صحابۂ کرامؓ کے فضائل بھی بیان فرمائے گئے ہیں۔ مزید براں وہ سینکڑوں حدیثیں بھی صدیق اکبرؓ کی شان میں صادق آتی ہیں جن میں عمومی طورپر مہاجرین ، مجاہدین ، مومنین ، اصحاب بدر اور اصحاب الشجرہ کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔
قرآن حکیم نے صدیقین کو انبیاء علیہم السلام کے بعد دوسرا درجہ دیا ہے اور اُمت محمدیہ کو سب سے بہتر اُمّت قرار دیا ہے ۔سیدنا صدیق اکبرؓ اُمت محمدیہ کے صدیق ہیں اور یہ وہ درجہ ہے جو انبیاء علیہم السلام میں حضرت ابراہیمؑ ، حضرت ادریسؑ اور حضرت یوسفؑ کو حاصل ہوا تھا۔ دوسرے لفظوں میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو نبوت کے سوا ان تمام اوصاف و محاسن سے بہرۂ وافر عطا فرمایا تھا جو انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہوتے ہیں۔ شاہ ولی اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی عملی اور عقلی قوت حضرات انبیاء علیہم السلام کی عملی و عقلی قوت سے مشابہ تھی ۔ مختصر یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد اُمّت مسلمہ کے سب سے بڑے آدمی سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے ۔ ان کی یہ افضلیت عہد رسالت میں بھی تمام اہل حق کے نزدیک مسلم رہی اور حضور کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی آج تک مسلم چلی آرہی ہے ۔