آلیر انکاؤنٹر کے مہلوک مسلم نوجوانوں کیساتھ انصاف رسانی کا مطالبہ

   

ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے، ایم اے ماجد صدر ڈی جے ایس کی پریس کانفرنس

حیدرآباد /7 اپریل (سیاست نیوز) آلیر فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے مسلم نوجوانوں کے افراد خاندانوں کے ساتھ انصاف کرنے اور اس واقعہ کیلئے قائم کی گئی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کی رپورٹ کو عام کرنے کا درسگاہ جہاد و شہادت نے مطالبہ کیا ۔ صدر ڈی جی ایس ایم اے ماجد نے مغل پورہ کے دفتر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 4 سال قبل بے قصور مسلم نوجوانوں کو فرضی انکاؤنٹر میں پولیس نے ہلاک کردیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس انکاؤنٹر کے ذریعہ اقلیتوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس انکاؤنٹر میں ہلاک وقار احمد اور اس کے 4 ساتھی سید امجد علی ، محمد ذاکر ، ڈاکٹر محمد حنیف اور اظہار خان کے ارکان خاندان کو انصاف نہیں ملا ہے چونکہ حکومت نے فرضی انکاؤنٹر کیلئے قائم کی گئی ایس آئی ٹی تحقیقات کی تفصیلات ہنوز عوام کے سامنے پیش کرنے میں کوتاہی کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم نوجوانوں کا فرضی انکاؤنٹر ایک منصوبہ بند قتل ہے اور خاطی پولیس عہدیداروں کی حکومت پشت پناہی کررہی ہے ۔ اس موقع پر ایڈوکیٹ غلام ربانی نے بھی کہا کہ وقار اور اس کے ساتھیوں کو عدالتی تحویل میں ہونے اور بیڑیوں میں جکڑے رہنے کے باوجود بھی اے کے 47 جیسے مہلک ہتھیاروں سے گولی مارکر قتل کردیا گیا تھا ۔ غلام ربانی نے کہا کہ فرضی انکاؤنٹر کی تحقیقات کیلئے ایس آئی ٹی قائم کی گئی تھی اور 17 خاطی پولیس عہدیداروں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی لیکن ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی ۔ واضح رہے کہ /13 اپریل 2015 ء کو ایڈیشنل ڈی جی پی سطح کے عہدیدار سندیپ شنڈالیہ کے زیرنگرانی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم قائم کی گئی تھی اور انکاؤنٹر میں ملوث پولیس اہلکاروں کے بیانات بھی قلمبند کئے گئے تھے اور ان کے ہتھیار بھی ضبط کئے گئے تھے ۔ چار سال گزرنے کے باوجود بھی اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ انتخابات کا ماحول ہونے کے باوجود بھی کوئی سیاسی پارٹی بے قصور مسلم نوجوانوں کی موت کا مسئلہ اٹھانے سے قاصر ہے ۔ حالانکہ انکاؤنٹر میں ہلاک مسلم نوجوانوں کے والدین بار بار حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور اس واقعہ میں ملوث پولیس عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ لیکن سیاسی مفادات پس پردہ ہونے کے نتیجہ میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اس مسئلہ پر بات چیت یا مباحث کرنے سے قاصر ہے ۔