تل ابیب۔ 21 جون (یواین آئی) اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ایران شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور تل ابیب اس سے گریز کر رہا ہے ۔ العربیہ کے مطابق نیتن یاہو نے تل ابیب میں معروف وائزمین انسٹی ٹیوٹ کے قریب ایرانی میزائلوں سے ہونے والے نقصانات کے معائنے کے دوران کہا کہ ایران شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور ہم اپنی بمباری میں اس سے گریز کر رہے ہیں۔ ہم صرف نیوکلیر اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم ایرانی حکومت کو نیوکلیر ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ، ہمارا مقصد ایرانی نیوکلیر پروگرام کو تباہ کرنا ہے اور ہمارے پاس ضروری صلاحیتیں موجود ہیں۔ ایران کے پاس 28000 میزائل ہیں اور وہ نیوکلیر بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ دوسری جانب نیتن یاہو نے کہا کہ ٹرمپ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ وہ ایک عظیم رہنما ہیں اور میں ہماری مدد کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو کہا تھا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ اگلے دو ہفتوں کے اندر فیصلہ کریں گے کہ امریکہ اسرائیل ایران محاذ آرائی میں مداخلت کرے گا یا نہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے ٹرمپ کے ایک پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ اس حقیقت کی بنیاد پر کہ ایران کے ساتھ مستقبل قریب میں ہونے یا نہ ہونے والے مذاکرات کا ایک اہم موقع ہے میں اگلے دو ہفتوں میں مداخلت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں اپنا فیصلہ کروں گا۔
ایرانی وزیر خارجہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی حملوں کی مذمت
جنیوا۔ 21 جون (یواین آئی ا) ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے جمعہ کو یہاں اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنے ملک پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے 59ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف بلا اشتعال جارحیت کی ہے ۔ عراقچی برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کے لیے جنیوا میں ہیں، جس میں یورپی یونین کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ عراقچی نے یو این ایچ آر سی کے اجلاس میں اپنی تقریر میں بتایا کہ اسرائیل فلسطین میں خوفناک نسل کشی کر رہا ہے ، اور اب وہ ایران کے خلاف جارحیت کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی نیوکلیر توانائی ایجنسی کی نگرانی میں ہونے کے باوجود ایران کی نیوکلیر تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حملے نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں، بلکہ ان سے سنگین تابکار رساؤ بھی ہو سکتا ہے ، جس کے ماحول اور عوامی صحت پر تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔