شیشہ و تیشہ

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقمہنگی پیاز… !!مہنگی ہوئی ہے پیاز تو لائیں کیسے ہماُس کے بغیر کھانا بھی کھائیں گے کیسے ہمدو سو روپیہ کیلو سے یہاں پیاز بکتی ہےسرکار کو

شیشہ و تیشہ

شبنمؔ کارواریروٹ ایک اومنی بس کاہاسپٹل سے یہ بس جاتی ہے تھانے کی طرفپھر کچہری کی عمارت اور کھلے میدان تکپھر پہنچ جاتی ہے پاگل خانے اور اُس کے بعدجیل

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعودفن کار!!اے بندۂ ِ مزدور نہ کر اِتنی مشقتکاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئےجا کر کسی دفتر میں تُو صاحب کا ہُنر دیکھبیکار بھی بیٹھے

شیشہ و تیشہ

شبنمؔ کارواریاچھی بات !!بیوی نے بڑے غصے میں شوہر سے یہ کہاتم کو جگہ ملے گی نہ دوزخ میں بھی ذراشوہر نے کہا یہ تو بڑی اچھی بات ہےرہنا نہیں

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعودکلرک شاعرکام کی کثرت سے گھبرایا تو اُس کے ذہن میںکروٹیں لینے لگی ہیں شاعری کی مُمکِناتاِک ذرا سی میز پر ہیں فائلوں کے چار ڈھیرفاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلات……………………………فریدسحرؔکاروبار

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعودکلرک شاعرکام کی کثرت سے گھبرایا تو اُس کے ذہن میںکروٹیں لینے لگی ہیں شاعری کی مُمکِناتاِک ذرا سی میز پر ہیں فائلوں کے چار ڈھیرفاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلات……………………………شبنمؔ

شیشہ و تیشہ

طالب خوندمیریکیا کروں؟مصروفِ شغلِ ساغر و مینا رہا کروںیا روز و شب عبادت و ذکرِ خدا کروں’’عمرِ دراز مانگ کے لایا تھا چار دن‘‘دو کٹ گئے ہیں اور دو باقی

شیشہ و تیشہ

عبدالباری چکر ؔ نظام آبادیجدید فیشنشارٹ لینت پوشاک میں بچوں کو اکڑتے دیکھاان کی پتلون کو کمر سے سرکتے دیکھابے حیائی کا یہ فیشن عجب ہے چکرؔچیز چھپنے کی جو

شیشہ و تیشہ

شجاع عاطفؔرکھا ہے …!!دل کا سالن و جگر سوپ پکا رکھا ہےاک حسینہ کو ضیافت پہ بلا رکھا ہےیوگا آسن نے عجب حال بنا رکھا ہے’’سر کو ڈھونڈو تو وہ

شیشہ و تیشہ

میر کا مصرع…!!وہ آئے بزم میں اتنا تو میرؔ نے دیکھاپھر اس کے بعد، چراغوں میں روشنی نہ رہیانورؔ مسعودنظامِ برق …!!ہر ایک عہد میں زندہ ہے میرؔ کا مصرعکسی

شیشہ و تیشہ

انور مسعودلا اَدریّت …!!مرے ہم فکر ہیں خیام جیسےمری یہ بات جذباتی نہیں ہےسمجھ میں ایک شے آئی ہے انورؔسمجھ میں کوئی شے آتی نہیں ہے…………………………فرید سحرؔحالت … !!ہمارے دیش

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹرسید عباس متقیؔتحفۂ عید !!ساقیا دے بادۂ لطف و کرمتا بیاں ہو شکریہ اُس کا رقمعیدِ نو کو جس نے دونا کردیابادۂ گُل گوں سے ساغر بھردیایاس جب دیکھے اُسے

شیشہ و تیشہ

محمد علی بخاریلاک ڈاؤن کے بعد 2021ء میں عیدالفطر کے موقع پر لکھا گیا کلام ’’قندمکرر‘‘ کے طورپر پیش ہے ۔ جو اُس وقت کے حالات کی عکاسی کرتا ہے

شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔبلی کا خواب …!!خوشیوں کا اس کی کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگاشوہر بنے غلام جو بیوی کے خواب میںنیند اُس کو کیسے آئے گی تم ہی کہو سحرؔچھچھڑے ہی چھچھڑے

شیشہ و تیشہ

موبائیلی مسلمان…!!مری تصویر کھینچو میں عبادت کر رہا ہوںبناؤ ویڈیو کہ میں اطاعت کر رہا ہوںملے گا جب ملے گا روز محشر اجر ساراابھی لائیک کی خاطر ہی اشاعت کر

شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔخواہش …!!شادی سے پہلے رہتی تھی خواہش یہی دل میںمل جائے مجھے اچھی سی دلہن خدا کرےکرتا ہوں مگر اب یہ دعا گِڑ گِڑا کے میںمل جائے مری بیوی

شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔایک بیوی …!!میرے پیچھے مرے پل پل کی خبر رکھتی ہےہو اگر ساتھ تو پاکٹ پہ نظر رکھتی ہےاس کی ہر بات مرے کان کو لگتی ہے بھلیایک بیوی

شیشہ و تیشہ

خواہ مخواہ حیدرآبادیپرہیز …!!مانگ کر تحفۂ نایاب لیا ہے جس نےروئیگا وہ دلِ بیتاب لیا ہے جس نےخواہ مخواہؔ بس وہی ہنسنے سے کرے گا پرہیزقبض ہے جس کو یا

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعودافسر اپنے نائب سے …!تیری کوتاہی سے شاید بچ گیا ہو کوئی ایکورنہ جو کاغذ بھی ہے انبارِ خاکستر میں ہےلا اِدھر جلدی اسے بھی داخلِ دفتر کروںپیش کر

شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھینازک دل !میں ہوں جس حال میں اے میرے صنم رہنے دےتیغ مت دے میرے ہاتھوں میں قلم رہنے دےمیں تو شاعر ہوں مرا دل ہے بہت ہی نازکمیں