آئی آئی ٹیز اور آئی آئی ایمس کی درجہ بندی کتنی معتبر

   

جوہانا رکھشا
ہر سال جب نیا تعلیمی سال شروع ہوتا ہے ہماری مرکزی وزارت تعلیم اعلیٰ تعلیم کے سرکاری اور خانگی تعلیمی اداروں کی رینکنگ یا درجے جاری کرتی ہے اور یہ رینکنگ جو 2016 ء سے بڑی پابندی کے ساتھ جاری کی جارہی ہے حکومت کی جانب سے قومی تعلیمی اداروں کیلئے تیار کردہ فریم ورک پر مبنی ہوتی ہے ۔ اس نے جو معیارات مقرر کئے ہیں ان معیارات کو ملحوظ رکھتے ہوئے سرکاری اور خانگی تعلیمی اداروں کو رینکس یا درجہ دیئے جاتے ہیں اور پھر مختلف زمروں میں یہ درجہ بندی شائع کی جاتی ہے ۔ مثال کے طورپر انجینئرنگ ، مینجمنٹ ، میڈیسن ( طب ) اور قانون میں رینکنگ دی جاتی ہے اور ہر زمرہ میں وزارت کی جانب سے 200 اداروں کو ملک کی بہترین تعلیمی ادارے قرار دیاجاتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ NIRF رینکنگس لاکھوں طلبہ کیلئے یونیورسٹیز اور پروگرامس کے انتخاب سے متعلق فیصلہ کرنے کے معاملہ میں بہت ہی اہم وسیلہ یا ذریعہ ہوتی ہیں ۔ واضح رہے کہ ان اداروں کو صرف یوں ہی رینک یا درجہ نہیں دیا جاتا بلکہ اس کیلئے ایک خصوصی طریقہ کار اور ڈیٹا استعمال کیا جاتا ہے۔اس طریقہ کار اور ڈیٹا کی بنیاد پر ہی رینکنگ دی جاتی ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ رینکنگ حقیقت میں خصوصی طریقہ کار اور ڈیٹا کی بنیاد پر ہی دی جاتی ہے؟ یہ سوال گزشتہ سال ستمبر میں اس وقت پیدا ہوا جب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ممبئی کے ایک ملازم نے الزام عائد کیا کہ IIMM نے آمدنی ، مصارف اور شعبہ تدریس سے وابستہ ارکان بالخصوص فیکلٹیز کی تعداد کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا ۔
اسکرال نے مذکورہ ادارہ کے ملازم کے الزام کی بنیاد پر NIRF کو IIMM کی جانب سے پیش کردہ ڈیٹا کراس چیک کیا ساتھ ہی اس کی سالانہ رپورٹس میں شائع ڈیٹا کا معائنہ کیا اور ان دونوں میں کافی فرق پایا ’’تفاوت پایا‘‘ ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب اس معاملہ میں اسکرال نے تبصرہ کرنے کی خواہش کی تب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ممبئی اور وزارت تعلیم دونوں نے کسی قسم کے ردعمل کااظہار نہیں کیا ۔ اگر دیکھا جائے تو اس کیس نے رینکنگ سسٹم میں پائی جانے والی خامیوں اور کوتاہیوں کو منظرعام پر لایا ہے ۔ یہ وہ رینکنگ سسٹم ہے جسے Self Reported data کہا جاسکتا ہے اور ادارہ نے اسے خود رینک حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جس سے رینکنگ کے عمل کے معتبر ہونے کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے ۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سات انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ( مینجمنٹ زمرہ میں ) کے دس سرفہرست اداروں میں شامل تھے ۔ جبکہ انجینئرنگ کے زمرہ میں ٹاپ 10 اداروں میں 9 انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی شامل کئے گئے تھے ۔ سکرال نے ان اداروں نے NIRF کو جو ڈیٹا پیش کیا تھااور اپنی سالانہ رپورٹس میں جس کی اشاعت عمل میں آئی تھی اس کا تقابلی جائزہ لیا۔ خاص طورپر آمدنی اور مصارف سے متعلق ڈیٹا کاجائزہ لیا جس میں کافی فرق پایا گیا ۔ اکثر اداروں نے اسکرال کے سوالات کاکوئی جواب نہیں دیا لیکن انتظامی تجربہ کے حامل پروفیسروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اعتراف کیاکہ کس طرح ڈیٹا کی زمرہ بندی کی جانی چاہئے ۔
آئی آئی ٹی کے ایک پروفیسر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ انھوں نے سنا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے یہ ادارے اکثر اعلیٰ درجات (رینکنگ) حاصل کرنے کیلئے نمبرات بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہیں یہاں تک کہ اپنے مقالہ جات کی تعداد کو بھی بڑھا چڑھاکر پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ جن ماہرین نے NIRF سسٹم کا جائزہ لیا ہے ان لوگوں نے بھی رینکنگ کے لئے پیش کردہ ڈیٹا کے بارے میں شفافیت اور وضاحت کے فقدان کو پایا ۔ جون 2024 ء میں مسٹر وی رام گوپال راؤ سابق ڈائرکٹر آئی آئی ٹی دہلی اور برلا انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی اینڈ سائنس مسٹر ابھیشیک سنگھ نے رینکنگ پر ایک مقالہ کی اشاعت عمل میں لائی اور رینکنگ سسٹم میں پائی جانے والی کئی خامیوں اور تضادات کا انکشاف کیا ۔ بہرحال IIMS کی آمدنی مصارف وغیرہ سے متعلق پیش کردہ ڈیٹا میں بھی کافی فرق پایا گیا ۔ اس ضمن میں ان لوگوں نے آئی ائی ایم لکھنو اور آئی آئی ایم بنگلور کی مثالیں پیش کی ۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ چند ایک ملازمین کو انتقامی رویہ کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں آئی آئی ٹی ممبئی ، آئی آئی ٹی کانپور ، آئی آئی ٹی کھڑکپور ، آئی آئی ٹی گوہاٹی ، آئی آئی ٹی مدراس ، آئی آئی ٹی دہلی اور آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے حوالہ سے بتایا گیاکہ سال 2022-23 میں ان اداروں کی آمدنی اور مصارف سے متعلق اُن کی اپنی سالانہ رپورٹس اور NIRF میں پیش کردہ اعداد و شمار کے درمیان کافی فرق پایا گیا ۔