آئی ایم سی آر ،محمد علی شبیر اور محمد ادیب کی عرضی پر سماعت ہوگی

   

متنازعہ وقف قانون کیخلاف سپریم کورٹ میں جدوجہد

نئی دہلی: حکومت تلنگانہ کے مشیراور سابق ریاستی وزیر محمد علی شبیر اور انڈین مسلم فار سول رائٹس کے چیئر مین اور سابق ایم پی محمد ادیب کی جانب سے عدالت عظمٰی میں سماعت کے لئے عرضی داخل ہو گئی ہے ۔آج یہاں جاری ریلیز کے مطابق متنازعہ وقف قانون پر عدالت عظمیٰ16 اپریل کو سماعت کر سکتی ہے ۔ اس دوران آئی ایم سی آر کی جانب سے سپریم کورٹ کے معروف وکیل فضیل احمد ایوبی پیروی کرین گے ۔ جاری مشترکہ بیان میں محمد علی شبیر اور آئی ایم سی آر کے چئیرمین محمد ادیب نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو حاصل مذہبی آزادی کو یہ قانون سلب کرتا ہے ۔ یہ کالا قانون جب تک واپس نہیں لے لیا جاتا ہے ۔ آئی ایم سی آر خاموش نہیں بیٹھے گا۔ واضح رہے کہ متنازعہ وقف قانون پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے پَچھلے دنوں پاس ہوا تھا۔ جس کے بعد صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد اسے گزٹ کے ذریعے نو ٹیفائی کرقانون کو نافذ العمل کر دیا گیا ہے ۔ دونوں ہی لیڈران نے متنازعہ وقف قانون کو مسلمانوں کے مذہبی و آئینی حقوق پر براہ راست حملہ اور وقف اداروں کی خومختاری پر سنگین حملے قرار دیا ۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے اس بل کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا گیا کہ کمیٹی میں شامل اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کے تمام سفارشات کو کمیٹی کے چیئر مین کی جانب سے یکسر مسترد کردیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے مشاورتی عمل غیر موثر ہوکر رہ گیا۔ دونوں ہی لیڈران نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشاورت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ حزب اخلاف کے ارکان کی آواز کو دبا دیا جائے ۔ ان کی صدائے احتجاج کو بلڈوز کردیا جائے ۔ آئی ایم سی آر نے متنازعہ قانون میں ان دفعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں وقف بورڈ اور سینٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کے شمولیت کی بات کہی گئی ہے اور ریاستی حکومتوں کو وقف املاک کے انتظام و انصرام اور ان کی درجہ بندی کے لئے حد سے زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ میں پہلے ارکان الیکشن کے ذریعے چن کر آتے تھے مگر اب نئے قانون کے تحت الیکشن کی جگہ سرکار کے ذریعے اراکین کو نامزد کیا جائے گا ۔یعنی وقف کے تحفظ کے بجائے اب اراکین حکومت کی ایماء پر کام انجام دیں گے ۔انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو مساجد ، درگاہوں ، قبرستانوں، عیدگاہوں اور صدیوں قدیم وقف اداروں پر قبضے کے عمل کو سہل بنانے کی کسی بھی کوشش کو نہیں قبول کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم قوم کے پاس دو ہی آپشن ہیں ایک تو یہ کہ بل کے خلاف عدالت میں قانونی لڑائی لڑیں یا پھر پر امن طریقے سے وقف قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج بلند کریں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم سی آر اس کالے قانون کی تنسیخ کے لئے ہر قانونی اور دستوری راستے کو اختیار کرے گی ۔ کیونکہ یہ قانون تمام مذاہب اور ملک کی لسانی اقلیتوں کیلئے انتہائی خطرناک ہے ۔