عثمانیہ یونیورسٹی میں تجربہ ، باوقار تحقیق ، مزید دو ماہ میں تکمیل ہوجانے کے امکانات
حیدرآباد ۔ 25 ۔ ستمبر : ( سیاست نیوز ) : جو سیل فون ہم استعمال کرتے ہیں جو اسمارٹ واچ ہم ہاتھ پر لگاتے ہیں وہ ٹی وی جو ہم گھر میں دیکھتے ہیں ۔ وہ ریموٹ جو اس کو چلاتا ہے ۔ کمپیوٹر اور لیاب ٹیاپ جو ہم دفاتر میں استعمال کرتے ہیں وہ کاریں اور ہوائی جہاز جن میں ہم سفر کرتے ہیں ۔ وہ راکٹ جس کو ہمارا ملک خلاء میں بھیجتا ہے ۔ سٹیلائٹ جو ہمیں موسم کی معلومات فراہم کرتے ہیں ان سب میں چپس بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ ہمارا ملک ان کی درآمد پر ہر سال لاکھوں کروڑ روپئے خرچ کررہا ہے ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلیے ہماری عثمانیہ یونیورسٹی نے غیر معمولی پیشرفت کی ہے ۔ شہر حیدرآباد سارے ملک میں پہلے ہی سافٹ ویر انڈسٹریز کے مرکز میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ اس کو اب ’ چپ سٹی ‘ میں تبدیل کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے متعلق الیکٹرانکس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر چندر شیکھر کی رہنمائی میں تحقیقی طلبہ اس میدان میں اپنی توجہ مرکوز کرچکے ہیں تائیوان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس موجود وسائل کے ساتھ فریکونسی سنتھیسائزر بنانے کے عمل کا آغاز کردیا ہے ۔ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ یہ دو ملی میٹر کے سائز میں تیار کیا جائے گا اور یہ ایک گیگا ہرٹز کی گنجائش سے کام کرے گا ۔ مرکزی حکومت نے اس تحقیق کے لیے 5 کروڑ روپئے دینے کے لیے رضا مندی کا اظہار کیا ہے ۔ اس کے ساتھ عثمانیہ انجینئرنگ کالج حیدرآباد کے ایک اور انجینئرنگ کالج نے الیکٹرانک مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے والی تین معروف کمپنیوں سے شراکت داری کی ہے ۔ مرکز نے اس کیلئے مناسب سافٹ ویر فراہم کیا ہے ۔ بنگلور کی ایک کمپنی Sea-Doc نے ریسرچ ٹیم کو چپس کی فریکوینسی پر تربیت دی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عثمانیہ یونیورسٹی نے یہ تحقیق جنوری 2023 میں شروع کی ہے ۔ اس سال اگست میں 90 فیصد کام مکمل ہوگیا ہے ۔ مزید دو ماہ میں چپ کی تیاری کا کام مکمل ہونے کا امکان ہے ۔ میکانیکل ، آٹو موبائل اور الیکٹرانکس کے شعبوں میں مائیکرو چپس کا استعمال زیادہ ہے ۔ ان کے بغیر مینوفیکچرنگ سیکٹر سکڑ جائے گا ہمارے ملک نے گذشتہ مالیاتی سال 2022-23 میں1,29,703 کروڑ روپئے کی چپس درآمد کی ہے ۔ مائیکرو چپس تیار کرنے میں تائیوان کی دنیا بھر میں منفرد پہچان ہے ۔ ہندوستان کے بشمول دیگر ممالک 3-5 ملی میٹر ( ایم ایم ) سائز کے چپس تیار کررہے ہیں ۔ تائیوان میں ایک ایم ایم سائز کی پیداوار ہے جس کی وجہ سے بیشتر ممالک تائیوان پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں ۔ کورونا کے دوران ان کی ایکسپورٹ بند ہونے سے عالمی معیشت کو نقصان پہونچا تھا ۔ چین اس مارکٹ پر قبضہ کرنے کی بھر پور کوشش کررہا ہے ۔ پروفیسر چندر شیکھر پرنسپل عثمانیہ یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ نے بتایا کہ ہم مستقبل میں کورونا کے دوران پیش آئے حالات پر قابو پانے کے مقصد سے فریکوینسی سنتھیسائزر چپس بنا رہے ہیں یہ مکمل طور پر دستیاب ہونے کے بعد چپس کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار بہت کم ہوجائے گا ۔ آئندہ 3 تا 5 سال میں چپس کی درآمد میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے ۔ ہندوستانی الیکٹرانکس سیکٹر میں یہ ایک انقلابی اقدام ہوگا ۔ تجارتی بنیادوں پر ان کی تیاری شروع ہونے کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی کو مارکٹ میں فروخت ہونے والی ہر چپ پر رائلٹی ملے گی ۔۔ 2