آسام میں مسلم شادی و طلاق رجسٹریشن قانون منسوخ

,

   

ریاست میں کمسنی کی شادی روکنے کی مساعی‘ کانگریس اور بی ایس پی کی تنقید

گوہاٹی :آسام کی بی جے پی حکومت نے ریاست میں مسلم شادی و طلاق رجسٹریشن ایکٹ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے کم عمر میں ہونے والی شادی پر روک لگے گی۔ مسلم شادی و طلاق رجسٹریشن ایکٹ ختم کرنے کا فیصلہ جمعہ کی دیر شب کابینہ میٹنگ میں لیا گیا۔ اس سے متعلق جانکاری دیتے ہوئے آسام کے چیف منسٹرہیمنت بسوا سرما نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ 23 فروری کو آسام کابینہ نے ایک اہم فیصلہ لیتے ہوئے سالوں پرانے آسام مسلم شادی و طلاق رجسٹریشن ایکٹ کو واپس لے لیا ہے۔ اس قانون میں ایسے التزامات تھے کہ اگر دلہا اور دلہن شادی کی قانونی عمر یعنی لڑکیوں کے لیے 18 سال اور لڑکوں کے لیے 21 سال کے نہیں ہوئے ہیں تو بھی شادی کو رجسٹرڈ کر دیا جاتا تھا۔ یہ آسام میں بچوں کی شادی روکنے کی سمت میں اہم قدم ہے۔آسام حکومت کا کہنا ہے کہ مسلم شادی و طلاق رجسٹریشن ایکٹ ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کی شادی کا رجسٹریشن بھی اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت ضلع کمشنر اور ضلع رجسٹرار کر سکیں گے۔ پہلے یہ ذمہ داری 94 مسلم شادی رجسٹرار کرتے تھے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مسلم شادی کا رجسٹریشن کرنے والے رجسٹرار کو اب ہٹایا جائے گا اور انھیں یکمشت 2/2 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے گا۔ آسام حکومت نے اس قانون کو ختم کرنے کے پیچھے یہ دلیل دی ہے کہ یہ قانون برطانوی حکومت کے دور کا تھا۔مسلم میرج اینڈ ڈیوورس رجسٹریشن ایکٹ 1935 کا ہے جس کو اب کو ختم کر دیا گیا ہے۔آسام حکومت کی جانب سے مسلم شادی و طلاق رجسٹریشن ایکٹ کو منسوخ کیے جانے پر سماجوادی پارٹی رکن پارلیمنٹ ایس ٹی حسن نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ایکٹ کتنے بھی بناتے رہیں یا ختم کریں مسلمان قرآن کے حکم پر چلے گا ۔ کانگریس کے مقامی قائدین نے بھی حکومت کے اس اقدام پر سخت نتقید کی ہے ۔