سید جلیل اظہر
یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ خدمت اور حسن سلوک میں ماں کا حق باپ سے زیادہ اور مقدم ہے۔ قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ کئی جگہ اس میںماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کے ساتھ خاص طور سے ماں کی ان تکلیفوں اور مصیبتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ مختلف ادوار میں اٹھاتی ہے، لیکن ہمارے پیارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’تمہارے حسن سلوک کی حقدار تمہاری ماں ہے، تمہاری ماں ہے، تمہاری ماں ہے اور پھر تمہارا باپ‘‘ ہم ہیں کہ ضعیف ماں باپ کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کررہے ہیں۔ گزشتہ سال حیدرآباد کے ایک علاقہ میں دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا کورونا سے صحت یاب ہوکر گھر لوٹنے والی ماں کو قبول کرنے سے بیٹے نے انکار کردیا۔ اس ماں پر کیا گذری ہوگی جو اپنی اولاد کے ظالمانہ رویہ کے باعث بے یارومددگار سڑک پر بیٹھی رہی۔ اخبار میں خبر پڑھنے کے بعد کئی قارئین نے ایسے واقعہ پر شدید رنج کا اظہار کیا ہے اور راقم الحروف کو پھر ایک بار ’’ماں‘‘ کی اہمیت پر قلم اٹھانے کا مشورہ دیا اور میں نے بھی اس واقعہ سے متاثر ہوکر پھر ایک بار ماں کی اہمیت کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے۔ اس لئے کہ ماں کی اہمیت وہی جان سکتا ہے جس کی ماں نہیں۔ خود میں بھی یتیم ہوں اور اس احساس کو اپنے جذبات کی سیاہی کے ذریعہ ماں کی محبت کی ترجمانی کرنے کی جسارت کررہا ہوں دنیا جانتی ہے :۔ عمر کوئی بھی ہو چوٹ لگنے پر پہلا لفظ منہ سے اماں ہی نکلتا ہے بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ دولت اس کے پاس ہے جس کی ماں زندہ ہے۔
یاد رکھو ماؤں کے لئے اپنی اولاد ایک ایسے ٹھنڈے سایہ کی مانند ہوتی ہے جو کہ کسی مسافر کو اچانک تپتے صحرا میں میسر آجاتے ہیں یہ ایک افسانوی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت پر مبنی ہے کہ ماں کے دل اپنی اولاد کے لئے اتنے نرم ہوتے ہیں کہ اگر کوئی لمحہ ایسا آجائے جس میں ان کی ذات حائل ہو رہی ہو تو وہ اپنی ذات تک کو اپنی اولاد پر قربان کردیتی ہے۔ ایک ماں کے جذبات پر غور کریں:۔
دل کو جلا کے دی ہے زمانہ کو روشنی
جگنو پکڑ کے ہم نے اُجالا نہیں کیا
ایسا نہیں ہے کہ ہر اولاد ماں باپ کی نافرمان ہے۔ اولاد یہ بھی جانتی ہے کہ ممتا کی تڑپ کیا ہے کیونکہ ممتا کی تعریف نہ پوچھ چڑیا سانپ سے لڑجاتی ہے بلکہ ایسی سوچ و فکر کی نسل بھی سماج میں موجود ہے جن کے ذہن میں اب بھی یہ بات پیوست ہے کہ مجھے محبت ہے ایسے ہاتھوں کی تمام انگلیوں سے نہ جانے کون سے انگلی پکڑ کر ماں نے چلنا سکھایا ہوگا۔ ماں کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ ان سپوتوں کے ارادے بھی اسقدر مستحکم ہوتے ہیں کہ بقول شاعر
ندی کے پاس ہی گھر ہے غموں کا پالا ہے
خبر ملی ہے کہ سیلاب آنے والا ہے
کوئی بلا بھی میرے پاس آنہیں سکتی
کے میری ماں نے بلاؤں میں مجھ کو پالا ہے
ایک اسلامی تاریخی واقعہ کا مطالعہ شاید نا فرمان اولاد کو جھنجھوڑ دے وہ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ جنت میں میرے ساتھ کون ہوگا۔ جواب میں کہا گیا کہ فلاں قصائی ہوگا۔ آپ کچھ حیران ہوئے اور اُس قصائی کی تلاش میں چل پڑے وہاں دیکھا تو ایک قصائی اپنی دکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا۔ اپنا کاروبار ختم کرکے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اس قصائی کے گھر کے بارے میں مزید کچھ جاننے کے لئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔ گھر پہنچ کر قصائی نے گوشت پکایا، روٹی پکاکر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کئے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں ایک نہایت کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ قصائی نے مشکل سے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور ایک ایک لقمہ اس کے منہ میں دیتا رہا۔ جب اس نے کھانا تمام کیا تو بڑھیا کا منہ صاف کیا۔ بڑھیا نے قصائی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر قصائی مسکرایا اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہر آگیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے قصائی سے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا؟ جس پر تو مسکرا دیا؟ قصائی بولا اے اجنبی یہ عورت میری ماں ہے ، گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں یہ روز خوش ہوکر مجھے دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے جنت میں حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ رکھے جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ بھلا میں کہاں اور موسیٰ کہاں۔ یاد رکھو ماں کی دعائیں تقدیر بدل دیتی ہے، اس لئے والدین کی نافرمانی سے بچو، اللہ تعالیٰ سب گناہ معاف کردیتا ہے سوائے والدین کی نافرمانی کے وہ اس فعل کے مرتکب کو مرنے سے پہلے ہی دنیا میں سزا دیتا ہے۔ ماں باپ کی عزت کرو ان کی ضروریات کا خیال رکھو تاکہ آپ کی اولاد آپ کا خیال رکھے۔ آپ کی عزت کرے اللہ کی ذات پر کامل یقین رکھو۔ حضرت علیؓ کا قول مبارک ہے کہ جو ذات رات کو درختوں پر بیٹھے پرندوں کو نیند میں گرنے نہیں دیتی وہ ذات انسان کو کیسے بے یارومددگار چھوڑ سکتی ہے۔ آج ساری دنیا میں کورونا وائرس کی وبا نے ایک عجیب و غریب صورتحال پیدا کر دی ہے جس سے رشتوں میں جو دوریاں پیدا ہو رہی ہیں اس کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہیں تھا۔ ایسے دور میں اولاد جس کو ماں نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اس کو گھر میں داخل ہونے سے روک رہی ہے، حالات تو اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں کہ تم نیچے گر کر دیکھو اٹھانے کوئی نہیں آئے گا تم ذرا اٹھ کر دیکھو گرانے سب آجائیں گے۔ جبکہ تمہارے گرنے پر ماں کا کلیجہ منہ کو آتا ہے اور تمہارے گر کر اٹھنے پر سب سے زیادہ اسی کے کلیجہ کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔