یوگی = طالبان ۔ابا جان۔چاچا جان
بنگال کا برج، امریکہ کی فیکٹری…سہرا اپنے سر
رشیدالدین
’’تم کیا جانو ابا جان کا مطلب یوگی بابو‘‘ ابا جان محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایثار و قربانی کی ایک علامت ہے۔ اس لفظ نے خود میں ایک سمندر کو سمودیا ہے۔ اس لفظ کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ صرف اسی کو ہوسکتا ہے جو ابا جان بننے کی صلاحیت رکھتا ہو یا وہ ایک فرمانبردار اور اطاعت شعار بیٹار ہو۔ دنیا کو وہ خوش قسمت انسان ہے جسے ابا جان کہنے والا کوئی ہو یا وہ کسی کو ابا جان کہہ کر اپنی سعادت مندی کا مظاہرہ کرے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے کان ابا جان کا لفظ سننے کو ترس جاتے ہیں۔ ایسے افراد کے احساس محرومی کی شدت کا اندازہ کرنا مشکل ہے ۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں یہ لفظ ادا کرنے کا موقع اس لئے نہیں ملا کہ وہ بچپن میں ہی والد کے سایہ سے محروم ہوگئے ۔ ایسے افراد کے سامنے اگر کوئی اپنے والد کو ابا جان کہہ کر پکارے تو اس کا دل مچل جاتا ہے کہ کاش میرا بھی کوئی ہوتا جسے میں ابا جان کہہ کر مخاطب ہوتا یا کوئی مجھے اس جملہ سے مخاطب کرنے والا ہوتا۔ ایک ماہر نفسیات کے تجربہ اور تحقیق کے مطابق بعض الفاظ امراض کا علاج اور صحتمند زندگی کی علامت ہوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک لفظ ابا جان ہے۔ جس طرح علاج کے لئے مختلف تھراپی ہوتی ہے، اسی طرح میٹھے بول کے ذریعہ بھی انسان کو بیماریوں سے بچایا جاسکتا ہے ۔ ہمیں اس جذباتی مسئلہ کو محض اس لئے موضوع بنانا پڑا کیونکہ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے اس مقدس لفظ بلکہ رشتہ کا مذاق اڑایا ہے۔ انتخابات میں عوامی مسائل سیاستدانوں کی تقاریر کا ایجنڈہ ہوتے ہیں لیکن جب کسی کے پاس کوئی کام یا کارنامہ نہ ہو تو وہ مقدس رشتوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ عربی زبان کا ایک قول ہے کہ انسان ہر اس چیز کا دشمن ہوتا ہے جس سے وہ محروم ہو ، محرومی بھلے ہی قابلیت ، صلاحیت ، دولت ، شہرت اور خوبصورتی کی صورت میں ہوسکتی ہے۔ سماج میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان جس چیز سے محروم ہوتا ہے ، اس کا دشمن بن جاتا ہے ۔ کاش یوگی ادتیہ ناتھ کو کوئی ابا جان یا پتاجی کہہ کر بلانے والا ہوتا تو شائد انہیں احساس ہوتا کہ جس لفظ کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ، اس کی اہمیت کیا ہے ۔ اسے محض اتفاق کہیں یا پھر کچھ اور کہ یوگی اور مودی دونوں اس نعمت سے محروم ہیں۔ استاد اور شاگرد دونوں کو ابا جان کہہ کر پکارنے والا کوئی نہیں اور اس دنیا سے کوچ کرنے تک بھی ان کے کان شائد یہ لفظ سننے کو ترس جائیں گے۔ نفرت کی سیاست اور زہریلے جملوں کے ذریعہ سماج کو تقسیم کرنا دونوں کی عادت خاصہ ہے۔ یوگی نے ایک جلسہ عام میں 2017 ء سے قبل ابا جان کہنے والوں پر اناج ہضم کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ ان کے نشانہ پر مسلمان تھے تاکہ اکثریتی طبقہ کے ووٹ متحد ہوجائیں۔ مودی ہو کہ یوگی دونوں کا ایک بھی کام ایسا نہیں جسے کارنامہ کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ ایک گجرات تو دوسرے اترپردیش میں نفرت اور موت کے سوداگر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یوگی کی مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ عمارتوں اور شہروں کے نام بھی اگر مسلمانوں کے نام پر ہوں تو برداشت نہیں۔ چن چن کر ناموں کو تبدیل کیا جارہا ہے ۔ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کا نعرہ اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے اعظم خاں کی جانب سے قائم کردہ یونیورسٹی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے ۔ دینی مدارس کو دہشت گردی کا لیبل لگاکر بدنام کرنے کی سازش ہے ۔ جو شخص حقیقی معنوں میں مذہبی ہوتا ہے چاہے وہ کسی مذہب کا ماننے والا کیوں نہیں وہ دوسروں سے نفرت نہیں کرتا کیونکہ کسی بھی مذہب نے نفرت کی تعلیم نہیں دی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اترپردیش میں مسائل کی بنیاد پر الیکشن ہو تو بی جے پی کو 100 نشستیں بھی حاصل ہونا مشکل ہے، لہذا نفرت کے ایجنڈہ کے تحت جملہ بازی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ کبھی طالبان تو کبھی اباجان کے ذریعہ رائے دہندوں میں نفرت کا زہر گھول دیا گیا ۔ یو پی اور دیگر پانچ ریاستوں کے چناؤ کے پیش نظر مودی حکومت نے طالبان کو انتخابی ایجنڈہ میں سرفہرست رکھا ہے ۔ کبھی پاکستان انتخابی ایجنڈہ ہوا کرتا تھا لیکن اب طالبان نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ گودی میڈیا کے ذریعہ 24 گھنٹے مخالف طالبان پروپگنڈہ کے ذریعہ انہیں مخالف ہندوستان اور مخالف ہندو ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ طالبان اور ابا جان کے بعد اب چاچا جان کو بھی تنازعہ میں گھسیٹ لیا گیا ۔ کسان قائد راکیش ٹکیٹ نے بی جے پی کے چاچا جان کا تعارف عوام سے کرایا اور چناؤ تک چاچا جان بھی سیاسی جلسوں اور ریالیوں میں متعارف ہوتے رہیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقدس رشتوں کو متنازعہ بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟ پتہ نہیں آنے والے دنوں میں اور کتنے رشتے انتخابی مہم کا حصہ بن جائیں گے۔ اترپردیش کے 19 فیصد مسلمان اگر بی جے پی کے لئے ابا جان اور چاچا جان بن جائیں تو یوگی اور ان کے ساتھیوں کو سر چھپانے جگہ نہیں ملے گی۔ مسلمانوں میں سیاسی شعور بیداری کیلئے کاش مولانا علی میاں ، غلام محمود بنات والا اور ابراہیم سلیمان سیٹھ جیسی قیادت اترپردیش میں ابھرے۔ مسلمانوں میں یہ حوصلہ پیدا کیا جائے کہ وہ ابا جان اور چاچا جان ہی نہیں بلکہ فرقہ پرست طاقتوں کے لئے دادا جان بن سکتے ہیں ۔
بی جے پی کے پاس اسمبلی چناؤ میں کامیابی کیلئے ہندو مسلم کا سہارا لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ، وہ اس لئے کہ عوامی خدمات کا کوئی ریکارڈ نہیں جسے کام کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ گزشتہ چار برسوں میں اشتعال انگیز موضوعات اور مختلف عنوانات سے مسلمانوں پر حملے اورہلاکتوں کے ذریعہ خوف کا ماحول پیدا کیا گیا۔ مسلمانوں پر یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ وہ محکوم اور بی جے پی کے رحم و کرم پر ہے۔ حکومت اور اقتدار میں حصہ داری اور ساجھے داری کے بجائے انہیں مہربانی پر گزارا کرنا ہوگا۔ یو پی کے اسمبلی چناؤ اور 2024 لوک سبھا انتخابات کے لئے بی جے پی نے رام مندر کی صورت میں ایک نیا کارنامہ تیار کیا ہے ۔ ایودھیا میں رام مندر کی بنیادوں کا کام مکمل ہوچکا ہے اور اب مندر کھڑا کرنا باقی ہے۔ رام مندر کی تعمیر جلد مکمل کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات کیلئے اصل ایجنڈہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا ۔ مبصرین کے مطابق ایودھیا میں مندر کی بنیاد مکمل ہونا دراصل بی جے پی کی انتخابی مہم کی بنیاد پڑنے کے مترادف ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کو ایک طرف مودی اور امیت شاہ کو مطمئن کرنا ہے تو دوسری طرف ہندو رائے دہندوں کو متحد کرنا ۔ ترقی کے جھوٹے دعوؤں کے ذریعہ یوگی ادتیہ ناتھ کامیابی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں اترپردیش حکومت کا اشتہار قومی اخبارات میں شائع ہوا جو دنیا بھر میں مذاق کا موضوع بن گیا ۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے کارناموں کے طور پر جو تصاویر پیش کی گئیں ، ان میں سے دو کا تعلق اترپردیش سے نہیں ہے۔ شاندار فلائی اوور کی تصویر دراصل کولکتہ کی ہے جبکہ جس فیکٹری کی تصویر شامل کی گئی وہ امریکہ کی ہے۔ کیا یوگی ادتیہ ناتھ نے اترپردیش میں بیٹھ کر یہ دونوں پراجکٹ تعمیر کئے تھے کہ جس پر اپنی دعویداری پیش کردی گئی۔ کام کسی کا اور نام اپنا یہ پالیسی اب یوگی ادتیہ ناتھ کو بے نقاب کرچکی ہے۔ حیدرآباد میں مثل مشہور ہے کہ ’’نانا کی دکان پر ماموں کی فاتحہ‘‘ ٹھیک اسی طرح یوگی ادتیہ ناتھ نے اترپردیش کے رائے دہندوں کو جاہل تصور کرتے ہوئے دوسروں کے کارناموں کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی۔ اخبارات کو بعد میں معذرت کرنی پڑی ، حالانکہ معذرت تو یوگی کو کرنی چاہئے کیونکہ کوئی بھی سرکاری اشتہار حکومت کی جانب سے تیار کرتے ہوئے اخبارات کو جاری کیا جاتا ہے۔ یوگی کی منظوری کے بغیر اشتہار کی اجرائی ممکن نہیں ہے لیکن بے نقاب ہونے کے بعد یوگی نے غلطی کی ذمہ داری اخبارات پر عائد کردی۔ ہندوستان کے قومی اخبارات میں اشتہار کے ذریعہ یوگی سارے ملک کو اپنی ترقی دکھانا چاہتے تھے تاکہ مودی اور امیت شاہ ان کی کارکردگی سے مطمئن ہوجائیں۔ ویسے بھی یوگی کے پاس وکاس دکھانے کیلئے کچھ نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مودی حکومت اشتہار جاری کرے جس میں گنگا میں بہتی لاشیں ، مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد ، آکسیجن کی کمی سے دم توڑتے کورونا مریض اور وبائی امراض کا شکار بچوں کی دواخانوں کے باہر اموات کی تصاویر شامل کی جائیںکیونکہ مودی کے کارنامے یہی کچھ ہیں۔ دراصل یوگی کو تبدیلی کا خوف ستا رہا ہے کیونکہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں چیف منسٹرس کی تبدیلی کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ 6 ماہ میں بی جے پی نے پانچ چیف منسٹرس کو تبدیل کردیا ہے ۔ اتراکھنڈ میں مختصر وقفہ میں دو چیف منسٹر تبدیل کئے گئے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کو ا قتدار میں لانے والے یدی یورپا کی گھر واپسی کردی گئی اور اب گجرات میں وجئے روپانی کو راتوں رات تبدیل کرتے ہوئے انتخابات کی قیادت کا خواب چکنا چور کردیا گیا ۔ یہ تبدیلیاں صرف انتظامی سطح کی نہیں بلکہ حکومت کی ناکامیوں اور عوامی ناراضگی کے سبب دکھائی دے رہی ہیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے خود کو بچانے کیلئے مودی اور امیت شاہ کے پسندیدہ نفرت کے ایجنڈہ کو اختیار کرلیا ہے تاکہ کرسی بھی بچی رہی اور دوبارہ اقتدار ملنے پر چیف منسٹری کی امید برقرار رہے۔ منور رانا کا یہ شعر اترپردیش کے حالات کی عکاسی کرتا ہے ؎
آپ نے کھل کے محبت نہیں کی ہے ہم سے
آپ بھائی نہیں کہتے ہیں میاں کہتے ہیں