آہ شہید اسماعیل ہنیہ۔ تم بہت یاد آؤ گے

   

محمد فرزان احمد
فلسطین کی سب سے منظم اسلامی تنظیم اور مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں جام شہادت نوش فرماگئے۔ یہ دل دہلادینے والی لرزادینے والی اندوہناک خبر سن کر میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ‘قلم کچھ تحریر کرنے سے قاصر ہے لیکن اس عظیم شخصیت ‘ فلسطینیوں کے لیے امید کی کرن اور شہید شیخ احمد یاسین کی شہادت کے بعد یہ سب سے بڑا صدمہ ہے جس کو تسلیم کرنا اور اللہ رب العزت کے فیصلے پر راضی برضا رہنا ہم سب کے ایمان کا تقاضا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ نئی نسل ان کی زندگی کے چند اہم نکات سے واقف ہوں اس لیے اسماعیل ہنیہ کی حیات و خدمات بطور خاص روزنامہ سیاست کے لیے تحریر کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ اسماعیل ہنیہ کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت تھی اور قطر میں رہائش پذیر تھے اور طویل عرصے سے اسرائیل کے ظلم و ستم اور ناجائز پابندیوں کی وجہ سے غزہ کی پٹی کا دورہ نہیں کر سکے تھے۔62 سالہ اسماعیل ہنیہ کو سنہ 2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ پارلیمانی انتخابات میں حماس کی تاریخ ساز کامیابی کے بعد‘ جب انھوں نے حکومت کی صدارت سنبھالی تھی تو ان کا نام اور ان کا عرفی نام (ابو العبد) سنہ 2006 سے ہی دنیا کو معلوم ہوچکا تھا۔ اسماعیل ہنیہ 1962 میں غزہ شہر کے مغرب میں شاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کو سنہ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کے قصبے اشکلون کے قریب اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔انھوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے وہ اسلامی تحریک میں شامل ہو گئے۔اسماعیل ہنیہ نے سنہ 1987 میں گریجویشن کی۔ اسی سال غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی تھی۔ انھیں اسرائیلی حکام نے اس کے فوراً بعد مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کر لیا تھا لیکن اس وقت ان کی قید کی مدت مختصر تھی۔1988 میں حماس کے غزہ میں ایک سرکردہ مزاحمتی گروہ کے طور پر سامنے آنے کے بعد انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا لیکن اس بار انھیں چھ ماہ کی قید ہوئی۔اسرائیل تاہم فلسطینی مزاحمت کو دبانے میں ناکام رہا اور پھر اگلے سال اسماعیل ہنیہ کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔1992 میں ان کی رہائی کے بعد اسرائیل نے انھیں حماس کے سینیئر رہنماو ¿ں عبدالعزیز الرنتیسی اور محمود الزہر کے علاوہ 400 سے زائد دیگر کارکنوں کے ساتھ جنوبی لبنان میں جلاوطن کر دیا۔
اسماعیل ہنیہ دسمبر 1993 میں غزہ واپس آئے اور اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے۔ اسرائیل نے حماس کے بانی ومفکر اسلام شیخ احمد یاسین کوسنہ 1997 میں جیل سے رہا کیا جس کے بعد ہنیہ کو ان کا معاون مقرر کیا گیا۔دونوں افراد کے درمیان قریبی تعلقات کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ کو فلسطین میں حماس کی مزاحمتی تحریک میں زیادہ اہمیت حاصل ہوئی اور وہ فلسطینی اتھارٹی میں گروپ کے نمائندہ بن گئے۔ستمبر 2003 میں ہنیہ اور احمد یاسین غزہ شہر کی ایک رہائشی عمارت پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے میں معمولی زخمی ہوئے۔ اسرائیلی طیارے کے قریب آنے کی آواز سن کر دونوں افراد بم گرنے سے چند سیکنڈ قبل عمارت سے نکل گئے تھے۔لیکن اس کے محض چھ ماہ بعد احمد یاسین فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیلی ہیلی کاپٹر سے برسائی جانے والی گولیوں کے زد میں آکر شہید ہوگئے‘ حالانکہ اس وقت بھی وہ وہیل چیر پر تھے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہیکہ سنہ 2018 میں امریکہ نے فلسطینی اسلامی تحریک حماس کے سیاسی رہنما ’’اسماعیل ہنیہ ‘‘ کو دہشت گرد قرار دیا اور ان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے ’حماس کے عسکری ونگ سے قریبی تعلقات ہیں‘ اور وہ ’شہریوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی ہیں۔‘ اس لیے انھیں شجر ممنوعہ بنادیا گیا۔گذشتہ سال سات اکتوبر دو ہزار تیئیس میں حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف حماس کے انتہائی منظم اور فیصلہ کن حملہ ’’ جس کو حماس کی جانب سے ’’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کہا جاتا ہے‘‘ کا آغاز اسماعیل ہنیہ کی جانب دنیا کی توجہ کا پھر ایک مرتبہ مرکز بن گیا ‘کیونکہ اسرائیل کے خلاف اس منظم حملے کے دوران میڈیا کی طرف سے نشر کی جانے والی ایک ویڈیو میں قطر کے دار الحکومت دوحہ میں اپنے دفتر میں تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ اسماعیل ہنیہ پر مخالفین یہ بھی الزامات عائید کرتے رہے کہ وہ خود اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لے رہے ہیں اور حماس اور ہنیہ نے معصوم فلسطینیوں کو جنگ کی راہ پر ڈال کر موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن یہ الزام سراسر غلط ہے نہ صرف وہ اسرائیل کی رکاوٹوں کی جانب سے غزہ یا فلسطین نہیں جاسکے‘ بلکہ وہ سیاسی شعبے کے سربراہ بھی ہیں اور حماس کی جانب سے دی گئی ذمہ داری کو وہ بھر پور انداز میں آخری سانس تک انجام دیتے رہے۔حماس کی جانب سے انھیں سیاسی شعبے کی ذمہ داری دے کر دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا بڑا کام سونپا گیا تھا ‘ اور وہ یہ کام قطر ایران ترکی اور دیگر ہمنوا ممالک میں رہتے ہوئے اور ان کے ساتھ مل کر انجام دیتے رہے۔ نہ صرف یہ بلکہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے لگ بھگ ستر افراد جام شہادت نوش کرچکے ہیں یہ خود اس بات کی علامت ہیکہ وہ اس جنگ میں برابر کے حصہ دار ہیں اور اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھارہے ہیں۔ان کی زندگی سے متعلق یہ بتانا بھی ضروری ہیکہ اسماعیل ہنیہ نے اپنی کزن امل ہنیہ سے اس وقت شادی کی جب وہ سولہ سال کی تھیں اور ان کے 13 بچے ہوئے جن میں آٹھ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں۔رواں سال اپریل دو ہزار چوبیس کے دوسرے ہفتے میں قاہرہ میں غزہ کی جنگ بندی کے لیے تازہ ترین مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹے اور پوتے پوتیاں غزہ میں ایک فضائی حملے میں شہید ہوچکے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے تحریک حماس کمزور ہوگی بالکل بھی نہیں ‘حماس کے قائدین اعلی اسلامی فکر ‘ جدید دنیا سے ہم آھنگ اور موجودہ بدترین دشمن اسرائیل اور اس کے حامی امریکہ کے خلاف سخت گیر ہیں یہی وجہ ہیکہ حماس کی مسلسل کامیابیوں اور فلسطین کی آزادی کے لیے حماس کی منظم اور مسلح جدوجہد کو ساری دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ اسماعیل ہنیہ تم ہمیشہ یاد آتے رہو گے ‘ جنت الفردوس میں اللہ رب العزت اور فرشتے تمہارا استقبال کرینگے۔۔فلسطینیوں کا خون شہادت رنگ لائے گا۔ اور فلسطین آزاد ہوگا۔۔۔انشا اللہ