اب ایٹم بم گرا دیں تاکہ سب کچھ ختم ہوجائے ، لاچار ماں کی آہ

   

غزہ سٹی: غزہ میں رہائش پذیر سات بچوں کی ماں اتماد القنوع کے پاس کھانے اور کھلانے کو بہت کم رہ گیا ہے اور وہ سوچتی ہیں کہ سب نے اْن کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا ہے۔ اتماد القنوع کبھی سوچتی ہیں کہ خاندان کی بھوک کا حل اب موت ہی ہے کیونکہ ایک سال سے جاری جنگ نے پورے علاقے قحط زدہ کر دیا ہے۔ تین لڑکوں اور چار لڑکیوں کی ماں کہتی ہیں کہ ’اب ہم پر ایٹم بم گرا دیں تاکہ یہ سب ختم ہو۔ ہم یہ زندگی نہیں چاہتے جو جی رہے ہیں، ہم روزانہ مرتے ہیں۔ کچھ تو رحم کریں،ان بچوں کو دیکھیں۔اْن کے قصبے دیر البلاح میں کھانے پینے کی اشیا تقسیم کرنے والے ایک خیراتی ادارے کے باہر بچوں کا ہجوم ہے جو اپنے خالی برتنوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔خوراک کے حصول کیلئے بے چین بچوں میں امدادی کارکن برتن سے دال کا سوپ تقسیم کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سارا انتظام بھوک کو ختم کرنے اور بڑے پیمانے پر اس کے احساس کو کم کرنے کیلئے کسی طرح بھی کافی نہیں۔اتماد القنوع کا کہنا ہیکہ اس کے خاندان کو اسرائیلی فضائی حملوں کا سامنا ہے جس میں ایک طرف دسیوں ہزار لوگ مارے گئے ہیں اور غزہ کا بڑا حصہ تباہ ہو چکا ہے جبکہ دوسری طرف بھوک ہے۔انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں کو پیر کو ایریز کراسنگ کے ذریعے شمالی غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔امریکہ رواں ہفتے اس بارے میں فیصلہ کرے گا کہ آیا اسرائیل نے غزہ میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے کی طرف پیشرفت کی ہے اور اس کے بعد واشنگٹن اس پر ردعمل ظاہر کرے گا۔عالمی غذائی تحفظ کے ماہرین نے کہا کہ اس بات کا ’قوی امکان‘ ہیکہ شمالی غزہ کے کچھ حصوں میں قحط پڑنے والا ہے کیونکہ اسرائیل وہاں حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کر رہا ہے اور کسی بھی طرح کی امداد وہاں تک نہیں پہنچ پا رہی۔غزہ میں قحط کی وارننگ کے بعد اقوام متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی ’اْنروا‘ کے سربراہ فلپ لازارینی نے اسرائیل پر بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
بھوک کے مارے غزہ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں۔اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے مختلف علاقوں کے رہائشیوں کو حملوں سے قبل دوسری جگہوں پر منتقل ہونے کی ہدایات دی جاتی ہیں اس دوران کئی مقامات پر پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔