اترا کھنڈ میں یو سی سی بی جے پی کا نظریہ دستور سے بالاتر!

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

دستور ہند کی دفعہ 44 کو پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دفعہ واضح طور پر اپنا مقصد بیان کرتی ہے۔ دستور کی دفعہ 44 دستور کے آئین کے حصہ 4 میں شامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست سارے ملک میں اپنے شہریوں کیلئے یکساں سیول کوڈ کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے گی ۔ یہ دفعہ 44 دستور کے حصہ 4 میں آتی ہے جو ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس دفعہ کا مقصد کمزور طبقات کے خلاف امتیازکو روکا جانا ہے اور الگ الگ تہذیبوں اور روایات کے درمیان یکسانیت قائم کرنا ہے لیکن اپنا ایک مخصوص نظریہ اور ایجنڈہ رکھنے والی بی جے پی نے یکساں سیول کوڈ کے الفاظ پر زور دیا ہے اور زعفرانی پارٹی کے موقف سے وہ سمجھنے بھی آتا ہے ۔ یعنی قابل فہم ہے لیکن ہم ’’شہریوں اور ہندوستان کے پورے علاقہ میں ‘‘ جیسے الفاظ کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ اگر دیکھا جائے تو دستور یا آئین کا منشاء یہ ہے کہ ہندوستان کے ہر شہری کو اپنے ملک میں کسی بھی جگہ رہنے یا آباد ہونے کا مکمل حق حاصل ہے اور سارے ملک میں شہریوں پر تمام جگہوں میں ایک ہی سیول کوڈ کی حکمرانی کرے ۔ ریاست کی یہ دمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کیلئے اس حق کو محفوظ بنائے ۔ اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ نے اس ذمہ داری کو کافی حد تک پورا کیا ۔ باالفاظ دیگر ہندوستانی شہریوں پر ایک ہی قانون معاہدہ کے تحت حکمرانی کی گئی، ایک ہی Law of Limitation کسی بھی عدالت دیوان میں ایک ہی طریقہ کار اور شہریوں کی شہری زندگی سے متعلق امور یا معاملات میں ایک ہی قانون (جیسے فوجداری معاملوں کے خلاف) اپنایا گیا ، اس کی یوں بھی تشریح و توضیح کی جاسکتی ہے کہ ہندوستانی دستور / قانون کی نظروں میں تمام ہندوستانی باشندے مساوی ہیں ، چاہے وہ کسی بھی مذہب ذات پات رنگ و نسل اور علاقہ سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں ۔ تمام ہندوستانیوں کو آئین نے مساویانہ حقوق فراہم کئے ہیں۔
ہٹ دھرمی اور گستاحانہ حرکت: جہاں تک ہماری پارلیمنٹ کا سوال پارلیمنٹ یقیناً دوسرے شہری پہلوؤں جیسے شادی یا طلاق اور جانشینی پر قانون سازی کا کام انجام دے سکتی ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے لیکن حالیہ عرصہ کے دوران بی جے پی کی زیر قیادت اتراکھنڈ حکومت نے ریاست میں قانون سازی کے ذریعہ یونیفارم سیول کوڈ ( یو سی سی) نافذ کرنے کا اعلان کیا جو اس حکومت کی ہٹ دھرمی بلکہ گستاخانہ حرکت ہے ۔ اس نے خود ساختہ طور پر شادی طلاق اور جانشینی جیسے اہم امور پر قانون سازی کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی ہے جو یقیناً اس کی ہٹ دھرمی ہے ۔ سب سے پہلے تو اتراکھنڈ کی حکومت اس بات کو یقینی نہیں بناسکتی کہ اس نے جو قانون بنایا ہے اس کا اطلاق سارے ملک کے تمام شہریوں پر ہو۔ اگر اتراکھنڈ میں پیدا ہوئے فرد کے معاملہ میں بھی اس قانون کے اطلاق کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے بنیا گیا قانون کا اطلاق اسی صورت میں ہوگا جب وہ شخص اتراکھنڈ میں رہتا ہو یا آباد ہو۔ اگر کوئی شخص اس قانون کو پسند نہیں کرتا تب وہ شخصی ریاست کو خیر باد کہہ سکتا ہے یعنی اس ریاست کو چھوڑ کر ملک کے کسی بھی حصہ میں آباد ہوسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر اتراکھنڈ کے رہنے والے دو باشندے ریاست کے باہر شادی کرتے ہیں (ان کی شادی اتراکھنڈ کے باہر انجام پاتی ہے) تب ریاست انہیں ریاست چھوڑنے اور شادی کرنے سے روکنے کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکتی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ حکومت یہ فرض نہیں کرسکتی کہ اس کا قانون اتراکھنڈ میں پیدا ہوئے کسی شخص پر ہندوستان کے کسی علاقہ میں دستیاب ہوگا اور قانون کا اس شخص پر اطلاق ہوگا۔ اگر ایسا شخص شادی کرتا ہے یا کسی بچے کو گود لیتا ہے اور اتراکھنڈ کے باہر اس معاملہ میں معاہدہ کرتا ہے تب مذکورہ قانون کے قابل اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے جو قانون بنایا ہے وہ پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے گئے اور نافذ کئے گئے قوانین کے متضاد ہوسکتے ہیں اور اسی صورت میں پارلیمنٹ میں بنایا گیا قانون ہی قابل اطلاق ہوگا ۔ واضح رہے کہ حال ہی میں اتراکھنڈ اسمبلی میں بی جے پی کی حکومت نے مذہبی نعروں کے درمیان یکساں سیول کوڈ بل پیش کیا اور پھر اسے منظوری بھی دے دی ۔ اس بل کی منظوری کے ساتھ ہی اتراکھنڈ کی پشکر سنگھ دھامی کی زیر قیادت ریاستی حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے والی وہ ملک کی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی مسلسل وکالت کر رہی ہے اور یہ اس کا انتخابی ایجنڈہ رہا ہے ۔ (اتراکھنڈ میں منظور کیا گیا یو سی سی بل ایک سے زائد بیویوں یا تعداد ازدواج پر پابندی عائد کرتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ بنا شادی کے جسے حرف عام میں لیو ان ریلیشن کہا جاتا ہے اسے نہ صرف منظم بناتا ہے بلکہ اس کے لازمی رجسٹریشن کا حکم بھی دیتا ہے ۔ طلاق کے عمل کی معیار بندی کرتا ہے ، اگر کوئی شادی بھی کرتا ہے تو اس کا رجسٹریشن لازمی قرار دیتاہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں منظورہ یہ بل آپ کو حکم دیتا ہے کہ رشتوں میں کس سے شادی کرنی چاہئے اور کس سے نہیں یہاں تک کہ گود لئے بچے کو حیاتیاتی بچے کے برابر سمجھتا ہے ۔ مرد اور عورت کو وراثت کے مساوی حقوق فراہم کرتا ہے ۔ سب سے بڑا مذاق یہ ہے کہ بی جے پی نے ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنانے کیلئے بل کو اس انداز میں بنایا ہے کہ اس کا اطلاق درج فہرست قبائل پر نہیں ہوگا ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں درج فہرست قبائل کی آبادی 3 فیصد سے بھی کم ہے۔ مسلمانوں کا اس بل کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ شریعت میں مداخلت والے کسی بھی قانون کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ یو سی سی شہریوں کو دیئے گئے بنیادی حقوق کے متضاد اور برعکس ہے) ۔ بہرحال ریاست اتراکھنڈ کی حکومت نے یو سی سی بنالیا اور اسے منظور کر کے نفاذ کا اعلان بھی کردیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے نریندر مودی کی زیر قیادت مرکز کی بی جے پی حکومت ہے جو حکومت اتراکھنڈ کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر فائرنگ کر رہی ہے ۔ دراصل وہ اتراکھنڈ میں یو سی سی نافذ کر کے یہ دیکھ رہی ہے کہ ملک میں اس کا کیا ردعمل ہوگا ۔ انگریزی میں اس کیلئے Test Shot کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ چنانچہ حسب توقع اس قانون پر بحث کا آغاز ہوچکا ہے کیونکہ یو سی سی آئیڈیا کا جائزہ لینے کے مجاز ادارہ یعنی 21 واں لا کمیشن 31 اگست 2018 کو اپنی رپورٹ میں اس نتیجہ پر پہنچا تھااور کہا ’’ اس لئے اس کمیشن نے ایسے قوانین سے نمٹا ہے جو امتیازی سلوک کرتے ہیں ۔ ان قوانین سے نہیں جو یونیفارم سیول کوڈ فراہم کرتے ہیں، ایسے میں یکساں سیول کوڈ اس مرحلہ پر ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب ہیں ۔ اتراکھنڈ میں منظور یکساں سیول کوڈ یا یو سی سی کو ایک اکثریتی قانون کہا جاسکتا ہے اور سارے ملک میں اس کی تقلید کروانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔
ایسا لگتا ہے کہ اتراکھنڈ حکومت کا مقصد بدلتے اقدار ، اخلاقیات کے عین مطابق ترقی پسنداور آزادانہ قانون بنانا نہیں ہے اور نہ تھا خود مرکزی وزیر داخلہ کے الفاظ میں رجعت پسندانہ پرسنل لا کو ہٹانا اس کا مقصد تھا ۔ اس قانون کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ (دفعہ 4 تا 48 ) شادی اور طلاق سے متعلق ہے ۔ دوسرا حصہ (دفعہ 49 تا 377 ) جانشینی سے متعلق ہے ، تیسرا حصہ (دفعہ 378 تا 389 ) لیو ان ریلیشن شپ (بناء شادی کے مرد و خاتون کے ایک ساتھ زندگی گزارنے) سے متعلق ہے جبکہ چوتھا حصہ متفرق ہے۔