اترپردیش میں مسجد کو مندر قرار دینے کا فیشن زوروں پر !

,

   

گیانواپی مسجد کے بعد ٹیلے والی مسجد ’’لکشمن ٹیلہ‘‘ ہونے کا دعویٰ۔ نچلی عدالتوں میں تیز کارروائی کا مظاہرہ

لکھنؤ؍ نئی دہلی: اترپردیش میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگر مسجد کو مندر قرار دینے کا فیشن زوروں پر ہے۔ گیانواپی مسجد کے بعد اب ٹیلے والی مسجد سے متعلق بھی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے۔ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع ٹیلے والی مسجد تنازعہ پر سیول کورٹ نے انتہائی اہم فیصلہ سنایا جو کہ مسلم فریق کے لیے مایوس کن ہے۔یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکمرانی میں اس طرح کے معاملوں میں یکایک تیزی آگئی ہے۔ لوک سبھا الیکشن 2024ء کے اعلامیہ کو بمشکل دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ ہندو فریقین نچلی عدالتوں یا سیول کورٹس سے رجوع ہوتے ہوئے یکے بعد دیگر مسجدوں پر منادر ہونے کے دعوے کررہے ہیں جسے عدالتیں تیزی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے فرقہ پرستانہ ماحول پیدا کرنے میں شامل ہورہے ہیں۔ مسلسل یہ دیکھنے میں آرہا ہیکہ نچلی عدالت ہندو فریق کی حوصلہ افزائی والے فیصلے صادر کرتے ہوئے عرضیوں کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ پھر آرکیالوجیکل سروے کی گنجائش پیدا کی جارہی ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے عوام کی توجہ زندگی کے سلگتے مسائل سے ہٹ کر مندر۔ مسجد کی طرف مبذول ہورہی ہے۔ دراصل ٹیلے والی مسجد کے تعلق سے مسلم فریق نے ریویزن پٹیشن عدالت میں داخل کی تھی جسے خارج کردیا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ہندو فریق کا مقدمہ قابل سماعت ہے۔ دراصل ہندو فریق نے ٹیلے والی مسجد کو لکشمن ٹیلہ بتاتے ہوئے عدالت میں عرضی داخل کی تھی۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹیلے والی مسجد دراصل مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔ہندو فریق کا کہنا ہے کہ اورنگ زیب کے وقت میں لکشمن ٹیلہ منہدم کرکے وہاں پر ٹیلے والی مسجد بنائی گئی تھی۔ ثبوت کے طور پر بتایا گیا تھا کہ مسجد کی دیوار کے باہر شیش ناگیش پاتال، شیش ناگیش تلکیشور مہادیو اور دیگر منادر واقع ہیں۔ اسے عدالت نے قابل سماعت قرار دیا تھا۔چنانچہ مسلم فریق نے ریویژن پٹیشن داخل کیا تھا، اور آج سماعت کے دوران عدالت نے اس کو خارج کر دیا۔