کئی حلقہ جات میں اکثریتی طبقہ کے ووٹ متحد، مجلس سے ناراض بی آر ایس کیڈر بھی متحرک، مقامی جماعت کی موقع پرست سیاست
حیدرآباد 20 مئی (سیاست نیوز) انتخابات کے موقع پر عام طور پر حلیف جماعتوں کی تائید حاصل کرنے کا مقصد زائد نشستوں پر کامیابی ہوتا ہے لیکن تلنگانہ میں کانگریس پارٹی کو اپنی حلیف مقامی جماعت سے فائدے کے بجائے نقصان دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ 10 برسوں تک بی آر ایس حکومت اور اُس وقت کے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو ملک میں اقلیتوں کی بھلائی کے لئے مثالی حکومت اور نمبر 1 چیف منسٹر قرار دینے والی مقامی جماعت نے اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ہی اپنی وفاداری بھی تبدیل کرلی۔ اسمبلی چناؤ کی انتخابی مہم میں کانگریس قائدین راہول گاندھی اور ریونت ریڈی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ ریونت ریڈی کو آر ایس ایس کا ایجنٹ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی گئی۔ مقامی جماعت اور اُن کی ہمنوا مذہبی تنظیموں نے اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس کی کھل کر تائید کی تھی لیکن نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی ہمیشہ کی طرح مجلس کے ذمہ داروں نے کے سی آر کو چھوڑ کر ریونت ریڈی کا ہاتھ تھام لیا۔ وفاداری اور تائید کی تبدیلی کے بارے میں آج تک کوئی وضاحت نہیں کی گئی اور ہمیشہ کی طرح برسر اقتدار پارٹی کی تائید کرتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کو ترجیح دی جارہی ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ مقامی جماعت نے جس پارٹی کی بھی کھل کر تائید کی اُسے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مجلسی قیادت نے اسمبلی چناؤ میں اپنے مذہبی گروپ کے ساتھ بی آر ایس کی تائید کی جس کے نتیجہ میں کئی علاقوں میں ہندو اکثریت کے ووٹ بی جے پی کے حق میں متحد ہوگئے جس کے نتیجہ میں بی جے پی ارکان اسمبلی کی تعداد 8 تک پہونچ گئی۔ بی آر ایس کے قائدین کو اِس بات کا احساس ہے کہ اسمبلی انتخابات میں مجلس کی کھل کر تائید سے فرقہ پرست بی جے پی کو فائدہ پہونچا۔ کچھ یہی حال لوک سبھا کے چناؤ میں دیکھنا کو ملا۔ مجلس نے اچانک اپنا رنگ تبدیل کرتے ہوئے ’’ماموں‘‘ سے منہ موڑ کر کل کے ’’آر ایس ایس انّا‘‘ کا ہاتھ تھام لیا اور اُنھیں سیکولر قرار دینے لگے۔ انتخابی مہم کے دوران تمام سروے کانگریس پارٹی کے حق میں دکھائی دے رہے تھے اور 17 میں 14 لوک سبھا نشستوں پر کانگریس کی کامیابی کی پیش قیاسی کی جارہی تھی۔ انتخابی مہم کے آخری حصے میں صدر مجلس اسدالدین اویسی نے کھل کر کانگریس کی تائید کا اعلان کردیا۔ اُنھوں نے سکندرآباد، نظام آباد اور چیوڑلہ کے کانگریس امیدواروں کا نام لئے بغیر اشارۃً تائید کی اور اپنے تمام ضلع یونٹس کو ہدایت دی کہ وہ کانگریس امیدواروں کے حق میں مہم چلائیں۔ رائے دہی سے عین قبل کانگریس کو مجلس کی کھل کر تائید نے بی جے پی کو موقع فراہم کردیا کہ وہ اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں کی ذہن سازی کرے اور اُنھیں بی جے پی کی تائید کی ترغیب دی جائے۔ مجلس کے نام کے ساتھ ہی اکثریتی طبقہ کانگریس کی تائید سے کئی مقامات پر منحرف ہوگیا جس کا کانگریس امیدواروں کو نقصان ہوسکتا ہے۔ انتخابی مہم کے آغاز میں جہاں سہ رخی مقابلہ تھا، مجلس کی تائید کے ساتھ ہی دو رخی میں تبدیل ہوگیا اور کئی حلقہ جات میں کانگریس کا بی جے پی سے راست مقابلہ ہے۔ رائے دہی کے رجحانات اور سروے رپورٹس کی بنیاد پر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسدالدین اویسی کی تائید کے بعد کانگریس کو دو لوک سبھا نشستوں کا نقصان ہوگا۔ تلنگانہ میں اگرچہ 10 لوک سبھا حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم رائے دہندوں کا موقف فیصلہ کن ہے اور اگر متحدہ طور پر رائے دہی کی جائے تو کانگریس کی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے۔ اسمبلی حلقوں کے اعتبار سے 46 اسمبلی حلقہ جات میں مسلم رائے دہندے بادشاہ گر کا موقف رکھتے ہیں۔ یہ موقف اُس وقت فائدہ مند ہوسکتا ہے جب مجلس کسی بھی پارٹی کی کھل کر تائید نہ کرے۔ مجلس کی جانب سے کانگریس کی کھل کر تائید نے فرقہ پرست طاقتوں کو متحرک کردیا جنھوں نے گھرگھر پہونچ کر ہندو ووٹ متحد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کی تائید سے کانگریس 6 نشستوں پر کامیابی کے بارے میں پُرامید ہے لیکن مجموعی طور پر 14 نشستوں سے کانگریس نے اپنے دعوے کو گھٹاکر 10 تک پہنچادیا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ سکندرآباد، چیوڑلہ، نظام آباد، ملکاجگیری، کریم نگر، عادل آباد اور محبوب نگر میں بی جے پی نے اکثریتی طبقہ کے ووٹ متحد کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ کئی مقامات پر مجلس سے ناراض بی آر ایس کیڈر نے اپنا ووٹ بینک بی جے پی کو منتقل کردیا تاکہ کانگریس کو کامیابی سے روکا جاسکے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 4 جون کو نتائج کے بعد کانگریس کو مجلس کی تائید سے کس قدر فائدہ ہوا یا پھر بی آر ایس کی طرح کانگریس بھی خسارہ میں رہے گی۔ لوک سبھا حلقہ جات کی اساس پر رائے دہی کے رجحان کا جائزہ لینے پر شہری آبادی پر مشتمل حلقوں میں مجلس کی تائید اور مقامی مجلسی قائدین کی سرگرمیوں سے بی جے پی کو فائدہ نظر آرہا ہے۔ 1