اسمبلی سیشن : سوال گُم ۔ جواب گُم …

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ قانون ساز اسمبلی اور کونسل کا اجلاس 7 ستمبر سے شروع ہوا تھا اور اس کو اصل میں 28 ستمبر تک جاری رکھا جانا تھا لیکن شاید حکومت کو سوالات سے خوف ہورہا تھا۔ اپوزیشن کے سوالات کا جواب دینا حکومت کے لیے گراں تھا ۔ اپوزیشن نے بھی کوئی تیاری نہیں کی تھی اس لیے اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے پر کوئی خاص احتجاج نہیں کیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپوزیشن اپنی ضد پر اَڑ کر حکومت کو جوابدہ بنانے کی ذمہ داری پوری کرتی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس بھی سوالات گُم ہیں اور حکومت کے پاس جواب گُم ہیں ۔ البتہ حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی منہ بولی دوست جماعت نے اپنے سیاسی حصے کی وصولی کے لیے ایوان میں کچھ مزاحمت کرنے کا مظاہرہ کیا ۔ مطلب کی سیاست پر کھری اترنے کا ثبوت دیا ۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس نے یہ طئے ہی نہیں کیا تھا کہ اس کو ایوان میں کتنا حلوہ کھانا ہے ۔ حکمراں پارٹی کے ارکان کے حصہ کا حلوہ بھی خود کھانے کی کوشش نہیں کی ۔ نتیجہ میں ریاستی خزانہ کی ساری ملائی چٹ کر جانے والی حکمراں پارٹی نے اپوزیشن کے حصہ کا حلوہ بھی خود ہی چٹ کر گئی ۔ حکومت نے اسمبلی سیشن کو مختصر کرنے کا بہانہ تلاش لیا اور کورونا وائرس کے بہانے اجلاس کی کارروائی مقررہ 28 ستمبر سے قبل ہی ملتوی کردی ہے اور اس کے بعد سوال گم جواب گم ہوگئے ۔ طرز سیاست اور حکومت کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ غور کیجیے اس حکومت نے ریاست کا کیا حال کردیا ہے ۔ پوری ریاست کا جائزہ لینے سے پہلے صرف تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کو ہی دیکھیں جہاں تھوڑی سی بارش کے بعد سارا شہر تالاب بن جاتا ہے ۔ گھر بازار بستیاں ڈوب جاتی ہیں ۔ لوگ نالوں میں بہہ جاتے ہیں ۔ سڑکوں پر کھلے ہوئے مین ہولس جان لیوا ہوتے ہیں ۔ سڑکوں پر بڑے بڑے کھڈ موٹر راں کی ہڈیاں پھسلیاں توڑ دیتے ہیں ۔ حکومت کی یہ جان لیوا کارکردگی اپوزیشن کو بھی نظر نہیں آرہی ہے جب شہر کے ایک بڑے حصہ پر بلدی کارپوریٹرس کا راج چل رہا ہو تو حکومت کی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے والے یہی جماعتی کارندے سامنے آتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے آج شہر کے ایک بڑے حصہ خاص کر مسلم غلبہ والے علاقوں میں بہت برا حال ہے ۔ بلدی مسائل جوں کے توں ہیں ۔ پھر بھی عوام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بھی مذہبی جذبات اور جماعت کی اندھی تقلید میں قائدین کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ کانگریس تو آئی سی یو میں ہے ۔ سی پی آئی ، سی پی ایم اور دیگر پارٹیوں کی کارکردگی صرف اخبار کی ایک چھوٹی خبر تک ہی محدود ہے ۔

بی جے پی کو تو فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے سے ہی فرصت نہیں ہے ۔ لہذا حکومت کا راستہ اپوزیشن سے بالکل صاف ہے ۔ یہ حکمراں پارٹی اپنی مرضی کی مالک بن گئی ہے ۔ کورونا کے بڑھتے واقعات کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔ ریاست میں کورونا کی خطرناک صورتحال کا اندازہ خود اسمبلی سیشن کے قبل از وقت ملتوی کردئیے جانے سے ہوجاتا ہے ۔ کیوں کہ اسمبلی میں آنے والے 52 افراد کو کوویڈ 19 پازیٹیو پایا گیا ، ان میں جماعت کے رکن اسمبلی ، ڈیوٹی کرنے والے پولیس ملازمین ، اسمبلی کا عملہ اور اس سیشن کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں میں سے بعض کے کوویڈ 19 ٹسٹ پازیٹیو پائے گئے ۔ چیف منسٹر نے یہ صورتحال دیکھ کر کارروائی ختم کردی ۔ جب کہ پارلیمنٹ سیشن بھی جاری ہے ۔ وہاں بھی کئی ارکان پارلیمنٹ کے کوویڈ 19 ٹسٹ پازیٹیو آئے ہیں ۔

پارلیمنٹ کی کارروائی چل رہی ہے ۔ تلنگانہ کی حکومت ہی ہے جو کورونا وائرس سے نمٹنے میں اپنی ناکامی کو چھپانے اور اسمبلی میں عوام کو جواب دینے کے فرض سے راہ فرار ہورہی ہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ اسمبلی سیشن کے دوران روزانہ 1200 افراد ایوان میں یا اسمبلی کے احاطہ میں ہوتے ہیں ۔ ان میں چیف منسٹر بھی شامل ہیں ۔ وزراء اور سیکوریٹی عملہ کے علاوہ صحافی بھی ہوتے ہیں ۔ ایک جگہ اتنی بڑی تعداد کا جمع ہونا کورونا وائرس کے خطرے کو بڑھاتا ہے ۔ مگر حکومت کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایوان کی کارروائی چلانے کی کوشش کرنی چاہئے تھا ۔ 20 دن تک کارروائی چلانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن 8 دن کے اندر ہی کارروائی ختم کردی گئی ۔ اسمبلی کی 8 روزہ کارروائی کے دوران ہی کورونا کے 100 پازیٹیو کیس سامنے آنے کے بعد چیف منسٹر نے سوچا ہوگا کہ جان ہے تو جہاں ہے لہذا کارروائی ختم کر کے گھر کی راہ لینے میں ہی عافیت ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں کورونا کی صورتحال کتنی تشویشناک ہے ۔ اسمبلی میں ہی 8 دن میں تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود کورونا کے 100 کیس ہوئے ہیں تو پوری ریاست میں ہر روز ہزاروں افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں ۔ مگر حکومت ہے کہ وائرس کے نمٹنے کے لیے لاپرواہی کررہی ہے ۔ یہ حکومت اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کررہی ہے بلکہ اس کو ’سراعت فرار ‘ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس لیے تیزی سے حکومت نے اسمبلی سیشن کو ختم کردیا ۔ بہر حال حکومت کے ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے اس مختصر اسمبلی سیشن میں ہی کئی اہم بل منظور کرالیے ہیں ۔ اس لیے حکمراں طبقہ اس سیشن کو تاریخی قرار دینے لگا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف منسٹر کے سی آر نے غیر معمولی پھرتی دکھا کر تمام بلوں کو منظور کرالیا ہے ۔ بڑے پیمانے پر اصلاحات لاکر عوام کا بھلا کرنے کا وعدہ پورا کیا ہے ۔ آخر یہ حکمراں پارٹی کے لوگ عوام کو بے وقوف کیوں سمجھتے ہیں ۔ کیا عوام اس حکومت کی کارکردگی سے ناواقف ہیں ؟ عوام اپنے مسائل سے بے خبر ہیں یا حکومت کی چالاکیوں سے دھوکہ نہیں کھاتے ہیں ۔ عوام کو اندازہ بھی ہے اور تجربہ بھی کہ یہ حکومت اب تک صرف وعدوں کے جھولے میں جھولا رہی ہے ۔ چبوترہ کی سیاست کرنے والوں کو جب عوام غلطی سے اقتدار کی ذمہ داری دیتے ہیں تو پھر یہی ہوتا ہے جو آج ریاست کے ہر ٹاون اور گاؤں اور شہروں میں ہورہا ہے ۔ عوامی سیاست اور تجربہ کی سیاست مسائل سے راہ فرار اختیار نہیں کرتی بلکہ ہر مسئلہ کا چٹکی میں حل نکال کر عوام کی مشکلات دور کردیتی ہے ۔ بدقسمتی اس بات کی ہے کہ عوام کی بڑی تعداد بھی اب خود چبوترے کی سیاست میں مصروف ہے ۔ اس سے آگے سوچنے اور سمجھنے اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کو جاننے کی فکر نہیں ہے عوام جس قدر اپنی لا علمی کوتاہی اور ووٹ دینے کا غلط فیصلہ کرنے کا مظاہرہ کرتے رہیں گے ان کی پریشانیاں اتنی ہی بڑھیں گی اور ان کی روزمرہ زندگی کے مسائل یوں ہی برسات میں ان کے محلے ، سڑکیں گلی کوچے تالاب بن کر ان کے غلط ووٹ کی طاقت کو چڑاتے رہیں گے ۔ اب بلدی انتخابات ہونے والے ہیں تو شہر کے حالات اور معمولی بارش سے ہونے والی پریشانیوں سے عوام نے سبق سیکھا ہے اور تکالیف کو محسوس کیا ہے تو بلدی انتخابات میں ان کا فیصلہ سوچ سمجھ کا مظہر ہونا چاہئے ۔