محمد مبشر الدین خرم
دنیا بھر میں جب کہیں جنگ کے بگل بجتے ہیں تو ساحرلدھیانوی کی نظم ’’جنگ و امن‘‘ یاد آجاتی ہے ۔ انہو ںنے کہا تھا کہ :
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہویا کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے
جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی
خون اور آگ آج بخشے گی
بھوک اور احتجاج کل دے گی
اس لئے اے ’’شریف انسانوں‘‘
جنگ ٹلتی رہے توبہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
برتری کے ثبوت کی خاطر
خون بہانا ہی کیا ضروری ہے؟؟؟
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے؟؟؟
پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن کشمیر جیسی حساس ریاست میں ہونے والے اس حملہ میں 28 افراد کی ہلاکت کے بعد پیدا شدہ ماحول اور سرحد پر تناؤ سے آخر کس کا فائدہ ہوگا اور کون ان حالات سے فائدہ اٹھائے گا بلکہ بنیادی طور پر سوال یہ ہے کہ پہلگام کے تفریحی مقام وادیٔ بیسرن میں سیاحوں پر کئے گئے حملہ کا ذمہ دار کون ہے اور اس حملہ کی وجہ کیا ہے!وادیٔ کشمیر میں دفعہ 370 کی تنسیخ سے قبل کئے جانے والے حملوں کے عسکریت پسندوں اور حریت پسند قائدین کو ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے اور کشمیری عوامعلیحدگی پسند تحریک کی عرصہ دراز تک حمایت اور اپنے مقصد کے لئے قربانیاں دینے کے بعد اب اپنے نظریات میں تبدیلی لانے لگے ہیں اور خود حکومت اور مرکزی ایجنسیاں جو کہ کشمیری نوجوانوں کی علیحدگی پسندوں کے ساتھ تعلقات پر نظر رکھتی ہیں وہ خود اس بات کا اعتراف کرنے لگی ہیں کہ اب و ہ جنون کشمیریوں میں باقی نہیں رہا کیونکہ دو نسلوں کے گذرنے کے بعد انہیں اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ ترقی کے لئے ہندستان کے ساتھ رہنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ان حالات میں جبکہ کشمیر میں سیاحوں کی آمد و رفت میں ہونے والے اضافہ کے نتیجہ میں کشمیری عوام کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور وہ خوش ہیں تو پھر کون ہیں جنہیں ان حالات سے تکلیف ہے!
عالمی سیاسی و معاشی صورتحال بالخصوص امریکہ کی ٹیرف پر کی جانے والی سیاست کا مشاہدہ کیا جائے تو ہند۔پاک تنازعہ سے راست فائدہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو ہوگا اور دونوں ہی ایک دوسرے سے معاشی محاذ پر نبرد آزما ہیں۔کشمیر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کے پیش منظر کا مشاہدہ کیا جائے تو اس حملہ سے ملک بھر میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ حملہ کے دوران ہندو مذہب کے ماننے والوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے قتل اور قتل سے قبل کلمہ پڑھنے اور کپڑے اتار کر توثیق کرنے کی اطلاعات منظرعام پر آئی ۔ ان اطلاعات کو بغیر کسی توثیق کے ذرائع ابلاغ اداروں اور سیاسی قائدین کی جانب سے مصدقہ اطلاعات کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ حملہ کے متاثرین کا موقف اس معاملہ میں کچھ اور ہی منظر عام پر آیا لیکن جس نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی تھی وہ تو فروغ پاچکا تھا۔امریکہ اور چین کے درمیان معاشی محاذ پر جاری ٹیرف کی جنگ کے ساتھ اگر ان حالات کو جوڑ کر دیکھا جائے تو ہند ۔پاک تناؤ اور جنگی حالات میں چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ امریکہ ہندستان کے ساتھ نظر آرہا ہے اس صورت میں دونوں ہی ہندستان کی سرزمین کوزرخیز میدان جنگ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے چینی مصنوعات کی درآمدات پر قابو پانے کے لئے چین پر 125فیصد ٹیرف عائد کرتے ہوئے چین کو معاشی جنگ میں شامل ہونے کا چیالنج کیا جس کے نتیجہ میں چین نے بھی 125 فیصد ٹیرف امریکی درآمدات پر عائد کرنے کا اعلان کیا اور اس تجارتی جنگ کے دوران دنیا بھر کے بازاروں پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے ہیں لیکن اسی ہنگامہ آرائی کے دوران اچانک ہندستان کے حساس مرکزی زیر انتظام علاقہ کشمیر میں دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے اور ہند۔پاک تناؤ کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور ہندستان میں نہ صرف امریکی فضائیہ کا طیارہ لینڈنگ کرتا ہے بلکہ اسرائیلی جنگی طیاروں کی آمد کی بھی توثیق ہوتی ہے لیکن اسی دوران امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں دونوں ممالک کے صدور کے درمیان بات چیت کے دور کا آغاز ہوتا ہے اور دونوں ہی ممالک کی جانب سے ٹیرف سے دستبرداری اختیار کرنے کے اشارے دئیے جانے لگتے ہیں۔کشمیرمیں ہوئے حملہ کے ساتھ امریکی نائب صدر کے دورۂ ہندستان‘ امریکہ کی آمدنی میں جاریہ ماہ ٹیرف کے اطلاق کے نتیجہ میں 15بلین ڈالر کے اضافہ ‘ چین اور امریکہ کے صدور کے درمیان تجارتی جنگ کے خاتمہ کے لئے کی جانے والی کوششوں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کے لئے آمادگی کی خبر کو ساتھ میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ان خبروں کے درمیان امریکی صدر نے آئندہ 4 ہفتوں کے دوران ٹیرف اور تجارتی معاملا ت میں مزید تبدیلیوں کے بھی اشارے دیئے ہیں۔
ہند۔پاک تناؤ کے دوران پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے والے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو اس میں دو سرکردہ ممالک سرفہرست ہیں جو کہ پاکستان کو ہتھیار وں کی فراہمی یقینی بنارہے ہیں۔چین اور ترکیہ کی جانب سے پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی میں ریکارڈ کئے جانے والے اضافہ کا جائزہ لیں تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ مخالف امریکہ قوتیں امکانی طور پر پاکستان کا ساتھ دینے کے لئے آمادہ ہیں ۔یوکرین ۔روس کے درمیان جنگ جو 2022 سے اب تک جاری ہے اس میں امریکہ نے نہ صرف یوکرین کی مدد کی بلکہ ہتھیاروں کی خریدی کے لئے بھی سرمایہ حوالہ کیا لیکن اب صورتحال تبدیل ہونے لگی ہے جبکہ چین نے کھل کر روس کی حمایت کی تھی ۔ روس۔امریکہ کے درمیان تعلقات میں تناؤ اسی طرح عیاں ہے جس طرح چین۔امریکہ کے درمیان تعلقات محض مجبوری ہیں۔دنیا بھر میں یوکرین۔روس جنگ جو اب سرد پڑنے لگی ہے اور سر زمین شام پر برسوں سے لڑی جانے والی جنگ ختم ہوچکی ہے تو ایسے میں دنیا کے اس سرمایہ دارانہ نظام کو نئے گاہکوں کی تلاش ہے جو جنگی حالات میں رہتے ہوئے ہتھیاروں کی خریدی کرسکیں۔ جنگ کے لئے آمادہ دانشوروں اور سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ چین کو سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ نیپال ‘ اور پاکستان میں موجود اپنے اثاثہ جات اور ان ممالک کو دیئے گئے قرض کی وصولی کے لئے خطہ میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنے پڑسکتے ہیں یا پھر وہ جنگ کے لئے اکسانے والی طاقتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
جنگ اگر ناگزیر ہوجائے تو ایسی صورت میں ہندستان اپنے اصل نشانہ پر حملہ کرتے ہوئے ان ٹھکانوں کو تباہ کرے جہاں دہشت گرد پیدا کئے جارہے ہیں لیکن اگر دونوں جانب سے طویل مدتی جنگ چھڑتی ہے تو اس کا نقصان دونوں ہی ممالک کو ہوگا اور وسط ایشیاء میں جو طاقتیں اپنے وجود کو تسلیم کروانے کے لئے کوشاں ہیں انہیں اس جنگ کے ذریعہ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے اسی لئے جنگ کو ممکنہ حد تک ٹالنے کی ضرورت ہے کیونکہ وسطی ایشیائی ممالک پر اگر کوئی سرمایہ کاریا مذہبی شدت پسند ملک کو اجارہ داری حاصل ہوتی ہے تو ایسی صورت میں ایشیائی ممالک بھی ہندستان کی طرح فرقہ وارانہ خطوط پر منقسم ہوسکتے ہیں جو کہ عالمی امن کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہونے کا خدشہ ہے ۔ ہند۔پاک تناؤ میں کمی لانے اور دونوں ممالک کو جنگ سے روکنے کے لئے عالمی سطح پر جس انداز میں کوششیں کی جانی چاہئے اس طرح کی کوششیں کسی بھی گوشہ سے ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں جو کہ یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ عالمی نظام جو دنیا کو حالت جنگ میں رکھتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کرتا ہے وہ ہند۔پاک جنگ کو یقینی بنانے میں مصروف ہے ۔سرحد کے دونوں جانب رہنے والے انسانوں میں رنگ و نسل کی تفریق ہے اور نہ ہی تہذیب و تمدن میں کوئی فرق پایا جاتا ہے اسی لئے دونوں ممالک کے امن پسند شہریوں کو ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کرنے کے بجائے جنگ کی مخالفت کرنی چاہئے ۔