٭ دو روز قبل دیئے گئے بیان کی اخباری نمائندوں کے روبرو وضاحت
٭ اخباری نمائندوں کو محتاط انداز میں رپورٹنگ کرنے کی ہدایت
واشنگٹن۔ 31 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حالانکہ کل ہی ایک بیان دیا تھا کہ امریکی افواج کو افغانستان سے ہٹا لیا جائے گا جبکہ خود صدر ٹرمپ نے بھی یہ حکم دیا تھا کہ 2020ء کے صدارتی انتخابات سے قبل امریکی فوج کو افغانستان سے نکل جانا چاہئے، تاہم پومپیو نے ایک بار پھر ’’یوٹرن‘‘ لیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے تخلیہ کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ تخلیہ کا قطعی فیصلہ اس وقت کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ صرف دو روز قبل ہی پومپیو نے صدر ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر موصوف جنگ زدہ افغانستان سے امریکی افواج کے جلد سے جلد تخلیہ کے خواہاں ہیں اور امکانی طور پر آئندہ سال 2020ء میں منعقد شدنی صدارتی انتخابات سے قبل امریکی فوج کی قابل لحاظ تعداد کو افغانستان سے واپس بلا لیا جائے گا۔ ایک ایسے وقت جب امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ کئی مراحل طئے کرچکا ہے۔ پومپیو کے تازہ ترین بیان کو امریکی میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا ہے
جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس کے کافی چرچے ہیں۔ اس موقع پر جب اخباری نمائندوں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اخباری نمائندے اپنی رپورٹنگ محتاط انداز سے کریں گے۔ ان کے (پومپیو) ریمارکس کے بارے میں جو رپورٹنگ کی گئی ہے، اسے مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ میں نے خود اس رپورٹنگ کو دیکھا ہے۔ اخباری نمائندے شاید میرے نکتہ کو ٹھیک طرح سمجھ نہیں سکے۔ یاد رہے کہ اخباری نمائندوں نے پومپیو سے وضاحت طلب کی تھی جس پر پومپیو نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل تخلیہ کی کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ 2016ء کے صدارتی انتخابات کی مہمات کے دوران ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کو واپس بلا لیا جائے گا کیونکہ افغانستان کی لڑائی اپنی طوالت کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے جس میں اب تک 2400 امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ 9/11 دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ نے انتقامی کارروائی کے طور پر افغانستان پر فوج کشی کی تھی اور اس کے بعد امریکی وہاں اس طرح الجھا کہ اب باہر آنے کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے۔ دوسری طرف افغانستان مفاہمت کیلئے خصوصی امریکی قاصد زلمے خلیل زاد اب بھی طالبان کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں تاکہ افغانستان سے امریکی افواج کے تخلیہ اور افغانستان حکومت میں طالبان کی شمولیت کیلئے کسی جامع منصوبہ کو قطعیت دی جاسکے۔
