باریہ عالم الدین
امریکی صدر جو بائیڈن جب جاریہ سال افغانستان سے امریکی فورسیس کا اعلان کیا، تب کچھ لوگوں نے اس بات کی پیش قیاسی کی کہ طالبان بڑی تیزی کے ساتھ افغانستان ایک بہت بڑے علاقہ پر قبضہ کرلیں گے۔ محتاط اندازہ کے مطابق افغانستان کے ایک تہائی اضلاع اب طالبان کے ہاتھوں میں ہے اور وہ 85% ملک پر کنٹرول کا دعویٰ کررہے ہیں۔ اگر ابھی تک یہ سچ بھی نہ ہو، اس کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہت جلد ایسا ہوگا۔ برطانیہ کی داخلی سلامتی ایجنسی نے M-15 کے سربراہ کین میک کلم نے اس بات کا انتباہ دیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپ تربیتی کیمپس قائم کرلیں گے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتہا پسند افغانستان کی موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پروپگنڈہ کرنا چاہیں گے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے بھی افغانستان میں ’’انسانی تباہی‘‘ کا انتباہ دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس گڑبڑ زدہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو زندگی بچانے کیلئے مدد کی فوری ضرورت ہے۔ رواں سال جنوری سے اب تک کم از کم 35 لاکھ افغان شہری بے گھر ہوئے ہیں اور 2 لاکھ 70 ہزار سے زائد افغان باشندوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی ہے جبکہ یوروپ کو پناہ گزینوں کے سیلاب کا سامنا ہے۔ یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ امریکہ، اپنے افغان مترجمین کو امریکی شہریت کی پیشکش کررہا ہے، لیکن اُن لاکھوں افغان باشندوں کا کیا ہوگا جنہوں نے مغربی ملکوں کی جانب سے افغانستان میں سلامتی و آزادی سے متعلق کئے گئے عہد پر بھروسہ کیا تھا۔ اب اُن لاکھوں افغان شہریوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ مغربی ملکوں نے افغان شہریوں کو ایک ایسے نظام حکمرانی کی یقین دہانی کروائی تھی جس میں انہیں ہر قسم کی آزادی کی فراہمی کا عہد کیا گیا تھا۔ امریکہ، افغان مترجمین کو شہریت کی پیشکش تو کررہا ہے، ان لاکھوں لڑکیوں کا کیا ہوگا جو شاید کبھی بھی اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکیں (طالبان نے اس مرتبہ اپنی پالیسی اور حکمت عملی یکسر تبدیل کردی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ وہ افغان معاشرے میں خواتین کو ان کا مستحقہ مقام ضرور دیں گے، بالخصوص تعلیمی شعبہ میں خواتین کی راہ میں وہ رکاوٹ نہیں بنیں گے)۔ ان لاکھوں سرکاری ملازمین کا کیا ہوگا، جنہوں نے امریکی حمایت یافتہ انتظامیہ کیلئے کام کیا، اور طالبان نے جن کا غداروں میں شمار کیا۔
جوبائیڈن انتظامیہ وسطی ایشیا اور مشرق وسطی میں اپنے کمٹمنٹس میں کمی لارہا ہے جس کا مقصد چین ، روس اور ایران سے درپیش خطرات پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہے، لیکن یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس علاقہ سے مغربی فورسیس کے تخلیہ سے سب سے زیادہ کن تین ملکوں کو فائدہ حاصل ہونے والا ہے۔ یہ تمام تین ملک، مابعد امریکہ دور میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہوچکے ہیں اور اس نتیجہ میں پہنچے ہیں کہ طالبان بہت جلد اُن کے اصل افغان ثالث ہیں۔ رواں ماہ طالبان کے ایک وفد نے ماسکو کا دورہ کیا جبکہ اسی وقت طالبان کے تین وفود تہران میں ایرانی حکام سے بات چیت کررہے تھے۔ ایرانی سرکاری میڈیا کے ذرائع اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ 20 سال طویل شورش کے بعد طالبان میں کیا تبدیلی آئی۔ دوسری طرف چین کے سرکاری اخبار کے ایڈیٹر نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ طالبان نے بیجنگ کو ایک دوست کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ طالبان ، ایغور عوام کی تہذیبی نسل کشی کیلئے چین کو تنقید کا نشانہ نہ بنانے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے چین کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت گھٹا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ برطانیہ کے وزیر دفاع نے طالبان سے بات چیت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن کے تحت ہمیشہ کی جنگوں سے گریز کرنے سے متعلق امریکہ کی ایک غیرصحت مندانہ خارجہ پالیسی منظر عام پر آئی، اور وہ یہ کہ بیرونی سرزمین پر امریکی فوج اب نہیں رہے گی۔ اگر افغانستان، عراق، مالی، کوسوو اور شام جیسے گڑبڑ زدہ اور کمزور ملکوں میں مغربی فورسیس نہیں رہیں گی تو پھر کوئی اور فورسیس کہیں نہ کہیں سے ان ملکوں میں اپنے قدم رکھیں گی۔ روس، چین، ایران اور ترکی نے اسی یوروپی سوشلسٹوں کی وہی سوچ کو اپنایا ہے جو ایک صدی قبل اپنائی گئی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو آفریقہ کا تقریباً حصہ مشرق وسطی، وسطی ایشیا، مشرق بعید کے علاقہ کو اس طرح کی طاقتوں یا آمریت کے خطرات سے دوچار ہونا یقینی دکھائی دیتا ہے۔ ان ملکوں میں ہمیشہ سے ہی خانہ جنگی کا ماحول رہا اور جنگوں نے ڈیرہ ڈالے رکھا۔ اس سے فائدہ کس کو ہوا۔ غیرریاستی کرداروں کو جیسے القاعدہ، طالبان، حزب اللہ، داعش کو۔ روس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کرایہ کی فوج اور فوجی مشیران تعینات کئے۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے ذریعہ اس میں شامل ملکوں کو طویل مدتی معاملتوں میں جکڑ لیا ہے اور یہ معاملتیں ان ملکوں کے فوجی اڈوں، بندرگاہوں اور بنیادی سہولتوں کو رہن رکھنے کی شکل میں اس کا نتیجہ نظر آئے گا۔ واشنگٹن، پیرس، لندن اور برلن میں خارجی پالیسی کے عہدیدار ایسا لگتا ہے کہ ایک ایسی دہشت ناک سمت کو ماننے سے ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں جس میں اکثر ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔ دوسری طرف برطانیہ کی جانب سے دی جانے والی بیرونی امداد نے زبردست کٹوتی اور بیرونی مشنوں کی برخاستگی یا عملے میں کمی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک غیرمستحکم اور فراخدلانہ پالیسیوں کی مخالف دنیا وجود میں آئے گی۔ پناہ گزینوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگا۔ ہتھیاروں اور منشیات میں 10 گنا اضافہ شروع ہوجائے گا اور ایک ایسی دنیا وجود میں آئے گی جس میں ڈونالڈ ٹرمپ، وکٹر اربان، میرین لیپین، نائجل فریر اور میٹیو سیلوینی جیسے لیڈروں کو عروج حاصل ہوگا جو مسائل کے نسل پرستانہ پالیسی پر مبنی حل پیش کریں گے جیسے بیرونی دہشت کے خلاف یا بیرونی دراندازی کے خلاف تحفظ کیلئے بلند و بالا حفاظتی دیواروں کی تعمیر وغیرہ ۔ مابعد سرد جنگ مغربی اقوام نے کافی ترقی کی اور دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی جانب تیزی سے پیش قدمی بھی کی، لیکن ان میں یہ جاننے کی صلاحیت کا فقدان رہا کہ چین ، روس ، توسیع پسندی کے ایک دہے بعد دنیا کیسی دکھائی دے گی۔ دنیا نے دیکھا کہ عالمی سطح پر انتہا پسندگروپس کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ طاقتور ملک ، کمزور ملکوں پر چھائے رہے اور ہمیشہ ان کی ترقی میں رکاوٹ بنے رہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کا تعلق عالمی استحکام، انصاف اور اہل حکمرانی سے ہے، لیکن جب تک عالمی سطح پر نظام انصاف مستحکم نہ ہو اور حقیقی جمہوریتوں کی تائید و حمایت نہ کی جائے، ترقی کرتی معیشتوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے تو پھر سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ لوگوں میں احساس کمتری اور احساس عدم تحفظ پیدا ہونے لگتا ہے۔ ان حالات میں جمہوریتوں کو مستحکم کرنا اور ان کی مدد کرنا بہت ضروری ہے۔ جہاں تک ملک کی تعمیر کا سوال ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی باغ کی تخلیق کرنا اور ایسا باغ جو پھلے پھولے اور اسے مسلسل مستحکم رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا خیال رکھنے، اس کی نگہداشت کرنے اور اس پر سرمایہ مشغول کرنا ہے، تاہم اس قدر زیادہ سجائے جانے، سنوارے جانے اور خوبصورت بنائے جانے کیلئے کئی دہے لگ جاتے ہیں، لیکن یہی باغ صرف ایک دوپہر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس کیلئے باغبان کی غفلت ذمہ دار ہوتی ہے، ایسے ہی ایک ترقی یافتہ ملک بھی حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے نتیجہ میں انجماد کا شکار ہوجاتا ہے۔ کمزور ملکوں میں چند ہزار بیرونی سپاہیوں پر مشتمل ایک مغربی فورس ، مغربی فورسیس کو تربیت فراہم کرتے ہوئے ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہوئے انتہا پسند گروپس پر قابو پاتے ہوئے اور اُبھرتے ہوئے خطرات کی نگرانی کیلئے فوائد حاصل کرسکتی ہے۔ افغانستان کا بھی یہی حال ہے۔ یہ ملک صحیح سمت میں سست روی کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔ اس ملک میں ادارے، اہلیت اور انتظامی کلچر کو بہت آہستہ آہستہ فروغ دیا گیا یا اس کے بیج بوئے گئے۔ اور 20 برسوں کی کوششوں کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہیں اور کھربوں ڈالرس سرمایہ مشغول کیا گیا، اس کا بھی کچھ فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔ اگر دیکھا جائے تو افغانستان صدیوں سے سامراجی طاقتوں کی خواہشات کا قبرستان بنا رہا اور روس کی ذلت آمیز شکست بھی ہنوز تازہ ہے۔ ایرانی ، چینی یہاں تک کہ طالبان کی جو خواہش ہے کہ وسطی ایشیا کی اس راہداری پر اجارہ داری قائم کرے،ہوسکتا ہے کہ اُن کا حشر بھی اپنے پیش رؤں کی طرح ہوگا۔