کابل ۔ 13 مئی ( سیاست ڈاٹ کام ) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ دفاع کے بجائے طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف حملے کریں تاکہ عوامی مقامات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔صدر غنی کا کہنا ہے کہ امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے فوج نے دفاعی پوزیشن اختیار کی ہوئی تھی لیکن اب وہ حکم دیتے ہیں کہ فوج دشمنوں کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی اپنائے۔افغان صدر کا یہ حکم ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دارالحکومت کابل اور صوبے ننگرہار میں منگل کو دو بڑے حملوں میں کم سے کم 38 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔حملوں کے بعد منگل کو سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی تقریر میں افغان صدر نے کہا کہ عوامی مقامات کی سیکیورٹی اور طالبان سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کے حملوں کو روکنے کے لیے وہ فوج کو جارحانہ کارروائیوں کا حکم دے رہے ہیں۔منگل کو کابل کے ایک زچہ و بچہ اسپتال میں مسلح حملہ ایوروں نے فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اسی روز صوبے ننگرہار میں ایک سابق پولیس اہلکار کی نماز جنازہ پر خود کش حملے میں کم سے کم 24 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔طالبان نے ان دونوں حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ البتہ طالبان ترجمان نے اشرف غنی کے اس اعلان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت شروع دن سے ہی امن معاہدے کے خلاف تھی۔ننگرہار میں ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔امریکہ نے بھی کابل اور ننگرہار حملوں کی مذمت کی ہے۔