افغان وزیر خارجہ کا خیرمقدم، دشمن کا دشمن ہمارا دوست

   

محمد ریاض احمد

دنیا بھر میں ایک طرف اسرائیل ۔ حماس جنگ بندی کے چرچے ہیں تو دوسری طرف روس ۔ یوکرین جنگ ختم کروانے سے متعلق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کوششیں بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ تاہم امریکہ کے بشمول دنیا کی خود ساختہ و نام نہاد بڑی طاقتوں میں طالبان ۔ پاکستان کشیدگی اور اس خطرناک کشیدگی کے بیچ ہندوستا کی افغان طالبان حکومت سے غیر متوقع قربت و دوستی بھی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران تحریک طالبان پاکستان کی پاکستانی فوج کے خلاف کارروائیاں اس قدر بام عروج پر پہنچ گئی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے ہاتھوں چند دنوں میں پاکستانی فوج کے کم از کم 50 اعلیٰ عہدیدار اور فوجی مارے گئے ہیں۔ خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ (سابقہ صوبہ سرحد) کے ایجنسی علاقوں اور افغانستان کی سرحدوں سے متصل علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان نے جنھیں طالبان کی زیرقیادت افغان حکومت کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہے، بڑے پیمانے پر پاکستانی فوج کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 48 گھنٹوں کی جنگ بندی کے آخری گھنٹوں میں تحریک طالبان پاکستان کے خودکش حملہ میں 7 پاکستانی فوجی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ فی الوقت اگر عالمی سطح پر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے دوست اب دشمن اور دشمن ایک دوسرے کے دوست بن گئے ہیں۔ اس معاملہ میں ہم ہندوستان کی طالبان سے دوستی اور قربت کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ مودی جی کی حکومت اور حکمراں بی جے پی کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کا ایجنڈہ کیاہے۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں مرکزی اور بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں میں کس طرح کا ظالمانہ اور معاندانہ سلوک روا رکھا گیا ہے۔ مسلمان اگر اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کا اظہار کرتے ہیں اور آئی لو محمد کے بیانرس نصب کرتے ہیں تو اُن کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں۔ حالانکہ دستور کی دفعہ 25 میں سارے ہندوستانی شہریوں کو مذہبی آزادی دی گئی۔ وہ بناء کسی خوف و خطر اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کرسکتے ہیں لیکن فی الوقت یہ کاغذی حد تک محدود کردیا گیا ہے۔ اگر اعلیٰ ذات کے ظلم و جبر اور غیر انسانی حرکتوں سے بیزار ہوکر کوئی دلت دامن اسلام میں پناہ لیتا ہے یا عیسائیت قبول کرتا ہے تو اپنی غیر انسانی متعصبانہ روش ترک کرنے کی بجائے یہ دعوے شروع کردیئے جاتے ہیں کہ یہ تو جہاد ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فرقہ پرست عناصر حکومتوں کی سرپرستی میں دلتوں کو ستانے انہیں ذلیل و رسوا کرنے ان کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں پر ڈاکہ ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔ اگر غریب دلت مندروں میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں گنگا جل اور دودھ سے دھویا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی حکمراں بی جے پی اور افغانستان کے حکمراں طالبان کی سوچ و فکر، نظریات، اُصول و قواعد اور اقدار بالکل جداگانہ ہیں لیکن عالمی تعلقات کے معاملہ میں دیکھا جائے تو لاکھ نظریاتی اختلافات کے باوجود ہمیں قومی مفاد کو اہمیت دینا چاہئے۔
شمشان قبرستان، لباس دیکھ کر پہچاننے مسلمانوں کو درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے جیسے طعنوں کا نشانہ بنانے والے بالآخر طالبان سے دوستی، ان کے ساتھ تعلقات بڑھانے، تعلقات کو مستحکم کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ وہی بی جے پی ہے جس کے کئی چیف منسٹر، کئی لیڈران جن کا تعلق گلی سے لے کر دہلی تک ہے مدرسوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے نہیں تھکتے۔ ملا امیر خاں متقی اُن طالبان جنگجوؤں کے ایک اہم لیڈر ہیں جنھوں نے ملا محمد عمر کی قیادت میں افغانستان کو امریکہ کی حامل اس کے اتحادی 40 ملکوں کی افواج کا قبرستان بنادیا تھا اور شائد بی جے پی کی زیرقیادت مودی حکومت کو یہ بخوبی اندازہ ہے کہ طالبان نے ہر قسم کی عصری دفاعی ٹیکنالوجی اور انتہائی طاقتور امریکی و اتحادی افواج کو ذلیل و خوار کرکے افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ امیر خاں متقی نے پوری آن بان و شان کے ساتھ برصغیر کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ وہاں کے علماء و طلباء کے ساتھ اچھا خاصا وقت گذارا، درس حدیث میں حصہ لیا۔ دارالعلوم دیوبند کی جانب سے ان کی دستاربندی بھی کی گئی۔ ملا امیر خاں متقی کے دورہ دارالعلوم کو لے کر آر ایس ایس اس کی ذیلی تنظیموں بجرنگ دل، وی ایچ پی اور بی جے پی قائدین کی زبان میں بات کرنے والوں نے بہت چیخ و پکار کی اور کہاکہ دینی مدارس دہشت گردی کے مراکز ہوتے ہیں جب کہ اُن بیوقوفوں کو یہ نہیں معلوم کہ جدوجہد آزادی میں ہندوستان کی جلاوطن حکومت میں آزاد ہند فوج میں علماء کا کتنا اہم کردار رہا۔ خاص طور پر جمعیت علمائے ہند کے مولانا محمود حسن دیوبندی، ریشمی رومال کی تحریک مولانا عبداللہ سندھی، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا فخرالدین احمد، مولانا حفظ الرحمن، مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا سید محمد میاں دیوبندی نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کو بتادیں کہ ملا امیر خاں متقی 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلے اہم اور سینئر لیڈر ہیں جنھوں نے ہندوستان کا دورہ کیا اور بڑی شان سے کیا۔ ہمارے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور مشیر قومی سلامتی اجیت ڈوول سے ان کی خصوصی ملاقاتیں ہوئیں۔ ویسے بھی امیر خاں متقی کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد 1988 (2011) کے تحت ممنوعہ عناصر کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ اس فہرست میں ملا محمد عمر، جلال الدین حقانی (اب یہ دونوں اس دنیا میں نہیں رہے)، سراج الدین حقانی، شمس الرحمن، عبدالنظیر اور عبدالسلام فیض، علی مروان گل نائب وزیراعظم کے نام بھی شامل ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو افغان وزیر خارجہ ملا امیر خاں متقی کا دورہ ہندوستان وزیراعظم نریندر مودی یا وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی کامیابی نہیں بلکہ ہمارے مشیر قومی سلامتی اجیت ڈوول کی کامیابی ہے۔ ہندوستان اپنے دشمن پاکستان کے دشمن (طالبان) کو اپنا دوست بناکر نہ صرف پاکستان کو دفاعی سطح پر بلکہ تجارتی سطح پر بھی غیر مستحکم کرسکتا ہے۔ پہلے ہی بلوچستان میں علیحدگی پسندی اپنے عروج پر ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی بے چینی بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ اجیت ڈوول کو یہ بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ امارت اسلامی افغانستان کی سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جن میں تانبہ، فولاد، سونا، لیتھیم اور نادر و نایاب معدنیات و عناصر کے ساتھ ساتھ ہائیڈرو کاربنس جیسے آئیل اور قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ سیسہ، المونیم، زنک، کرومیم کے ذخائر بھی افغان زمین اُگل رہی ہے۔ لیتھیم الیکٹرک گاڑیوں کی بیاٹریوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ قیمتی پتھر لاجورد یاقوت زمرد وغیرہ افغانستان میں پائے جاتے ہیں۔ کوئلہ کے ذخائر بھی وہاں موجود ہیں۔ نمک، گندھک اور TAVERTIN جیسے صنعتی مواد وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق افغانستان کی قومی مجموعی پیداوار 17.33 ارب ڈالرس ہے جبکہ ڈالرس کے مقابلہ افغانی کرنسی کی قدر 66.29 ہے جبکہ 1.34 ہندوستانی روپئے ایک افغانی روپئے کے مساوی ہے جبکہ ایک اے ایف این 4.27 پاکستانی روپئے کے برابر ہے۔ ایک ایسا بھی وقت تھا جب افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد ہندو اور سکھ ہوا کرتے تھے۔ یہ 1996ء سے پہلے کی بات ہے جب ملا عمر کی قیادت میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا۔ غرض طالبان سے دوستی کو یقینی بنانے میں اجیت ڈوول کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔