الیکشن کمیشن کو بی جے پی یونٹ بنانے کی کوشش

   

روش کمار
ہمارے ملک میں بڑی سرعت کے ساتھ اقدامات کرتے ہوئے مودی حکومت نے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کردیا ہے۔ گیانیش کمار راجیو کمار کی جگہ حاصل کرچکے ہیں۔ گیانیش کمار کے تقرر کو لیکر سی ای سی کا تقرر کرنے والے پینل کے اجلاس میں راہول گاندھی پہلی مرتبہ قائد اپوزیشن کی حیثیت سے شامل ہوئے لیکن انہوں نے گیانیش کمار کے تقرر اور تقرر کئے جانے کے طریقہ کار کی مخالفت کی ہے۔ راہول گاندھی نے 18 فروری کی دو پہر اپنی عدم رضامندی یا عدم اتفاق کو ٹویٹر کے ذریعہ منظر عام پر لادیا جس سے پتہ چل سکتا ہے کہ ان کے اختلاف کی بنیاد کیا تھی ابھی تک ان کی باتوں کو لے کر ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں رپورٹ کی جارہی تھی۔ راہول گاندھی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ اگلے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے منعقدہ میٹنگ میں میں نے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو اپنا اختلافی نوٹ پیش کیا۔ ’’ایک آزادانہ الیکشن کمیشن کا سب سے ضروری کردار یہ ہے کہ وہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرس کے تقررات میں حکومت کی دخل اندازی سے آزاد ہو۔ سپریم کورٹ کو نظرانداز کرکے اور چیف جسٹس کو کمیٹی سے ہٹاکر مودی حکومت نے الیکشن کمیشن کی آزادی کو نقصان پہنچایا اور کروڑہا رائے دہندوں کی رائے کی فکر میں اضافہ کیا ہے۔ بطور قائد اپوزیشن، بابا صاحب امبیڈکر اور معماران وطن کے اصولوں کی پاسداری کرنا اور حکومت کی ذمہ داری طے کرنا میرا فرض ہے۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا اس طرح سے آدھی رات کو فیصلہ کرکے نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنا توہین آمیز بھی ہے اور بدبختی بھی جبکہ اس پیانل کی تکمیل اور اس کے طریقہ کار کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔‘‘ 18 فروری کی صبح وکیل پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں مانگ کی کہ جمعرات کو 41 نمبر پر لسٹ کئے گئے اس کیس کو نمبر ایک پر سناجائے۔ بنچ کی طرف سے کہا گیا کہ باقی مقدمات کے حساب سے طے کیا جائے تاکہ اس کی سماعت کب کرنی ہے۔ راہول گاندھی کا سوال صرف راہول گاندھی کا نہیں ہے یہ الیکشن کمیشن سے جڑا سوال ہے اور ہر ایک رائے دہندہ کا سوال ہونا چاہئے۔ آپ کو دیکھنا یہ ہے کہ تقرر کے لیے جو طریقہ کار مودی حکومت نے بنایا ہے کیا وہ سیاست سے آزاد نظر آتا ہے؟ اب اس کمیٹی میں وزیراعظم ہیں ان کی جانب سے نامزد ایک مرکزی وزیر ہے کیا یہ ممکن ہے کہ مرکزی وزیر، وزیراعظم سے کسی بھی نام پر اختلاف کرسکیں گے۔ آپ نے کب سنا ہے کہ مودی مودی کرتے رہنے والے وزیروں نے وزیراعظم سے کبھی الگ رائے رکھی ہو تو کمیٹی کے ڈھانچہ سے ہی سب واضح ہوجاتا ہے کہ عدم اتفاق یا اختلاف رائے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ قائد اپوزیشن اختلاف رائے رکھتے ہیں تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ راہول گاندھی کی مخالفت کے باوجود گیانیش کمار کا تقرر کردیا گیا۔ انوپ کیس میں بھی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکومت کے دبائو سے آزاد تنظیم کی شکل میں دیکھا ہے۔ اگر اس کے سربراہ اور ارکان کے تقرر میں حکومت کا دخل رہے گا، وزیراعظم اور ان کی جانب سے نامزد وزیر داخلہ کا دخل رہے گا تب کیسے مان لیا جائے کہ الیکشن کمیشن، حکومت کے دبائو سے آزاد ہے اور اپنے طور پر فیصلہ کرتا ہے۔ اپنی عدم اطمینانی کو واضح کرتے ہوئے راہول گاندھی نے پھر سے اس بحث کو سامنے لایا ہے۔ 17 فروری کو اپنے اختلافی نوٹ میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی نے وزیر داخلہ امیت شاہ سے جو کہا ہے وہ کچھ اس طرح ہے ’’جون 1949ء میں قانون ساز اسمبلی میں آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے ہندوستان کی جمہوریت اور الیکشن کمیشن کے کام میں حکومت کے دخل کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ حکومت کی دخل اندازی سے آزاد الیکشن کمیشن کا اہم پہلو اس کے چیف الیکشن کمشنر اور دوسرے کمشنران کے تقررات کے عمل پر 2 مارچ 2023ء کو سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے فیصلہ دیا کہ ان تمام کے تقررات ایک ایسی کمیٹی کے ذریعہ کئے جانے چاہئے جس میں وزیراعظم، قائد اپوزیشن اور ملک کے چیف جسٹس شامل ہوں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کروڑوںرائے دہندوں کی بے چینی دیکھی جاسکتی ہے جو ہندوستان کے انتخابی عمل کو لے کر فکرمند ہیں۔ عوامی سروے میں بھی پایا گیا ہے کہ ہندوستان کے ا نتخابی عمل اور اس سے جڑے اداروں میں رائے دہندوں کا اعتماد کم ہوتا جارہا ہے۔ افسوس سپریم کورٹ کے فیصلہ کے کچھ عرصہ بعد ہی اگست 2023ء میں حکومت ہند نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں سپریم کورٹ کے حکم اور اس کے جذبات و احساسات کو کنارے کردیا گیا۔ حکومت نے تقرر کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کی ازسر نو تشکیل کی اور چیف جسٹس کو ہٹاکر ایک مرکزی وزیر کو شامل کردیا۔ یہ سپریم کورٹ کے حکم اور جذبات کی صریح خلاف ورزی ہے اس سرکاری حکم کو ایک مفاد عامہ کے تحت داخل کردہ درخواست کے ذریعہ چیلنج کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس مسئلہ پر سماعت ضرور کریں گے۔ کانگریس پارٹی کا ماننا ہے کہ اگلے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کو سپریم کورٹ کی سماعت تک ٹالا جائے اور کمیٹی کی میٹنگ بعد میں رکھی جائے جس وقت اس سارے عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اس پر سماعت ہونے والی ہے اس وقت اس کمیٹی کا اپنے منصوبے کے مطابق آگے بڑھنا ملک کے اداروں اور معماروں کے تئیں توہین آمیز رویہ ہوگا۔ گیانیش کمار کے تقرر پر صرف حکومت کی مہر ثبت ہے۔ ان کا انتخاب وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی پسند کی بنیاد پر کیا گیا۔ راہول گاندھی نے تو اسی کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ تقرر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک رک جانا چاہئے۔ ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ساکت گوکھلے نے طنز کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے کہ شری امیت شاہ جی کو ہندوستان کا نیا الیکشن کمشنر بننے کی مبارکباد، ملک کو پورا بھروسہ ہے کہ آپ کی قابل قیادت میں الیکشن کمیشن کو بی جے پی کی اکائی (یونٹ) بنانے کا ہدف کامیابی سے پورا کرلیا جائے گا۔ دوستانہ انتباہ یہ ہے کہ 2026ء میں بنگال کو لے کر چوکس راہئے آپ کامیاب نہیں ہوں گے۔ ایک بڑا سوال یہاں یہ ہے کہ اب اگر چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی مرضی سے ہی ہونی ہے تو قائد اپوزیشن کو اس میں شامل رکھنے کی کیا ضرورت جب ان کے عدم اتفاق کے بعد بھی مرضی حکومت کی ہی چلنی ہے تو قائد اپوزیشن کو کمیٹی میں رکھنے کا ڈھونگ کیوں کیا جارہا ہے؟ جس طرح سے چیف جسٹس کو تقرر کرنے والی کمیٹی سے ہٹایا گیا اسی طرح سے قائد اپوزیشن کو بھی ہٹادیجئے یا پھر کمیٹی کی ساخت ایسی رکھئے کہ توزن دکھائی دے۔ کیا چیف جسٹس کو شامل کرنے سے شفافیت آجاتی ہے؟ یہ ایک کھلا سوال ہے۔ چیف جسٹس سی بی آئی سربراہ کے تقرر کی کمیٹی میں تو ہوتے ہی ہیں لیکن کیا کبھی آپ نے بتایا کہ حکومت نے جو نام آگے بڑھایا چیف جسٹس نے اس کی مخالفت کی۔ سوال ہے کہ تقرر کا عمل کیا آپ کو بھروسہ دلاتا ہے کہ یہ سیاسی مداخلت سے پاک ہے۔ حکومت نے کیوں نہیں سوچا کہ ہندوستان کے چیف جسٹس کی جگہ کسی اور اہم شخصیت کو بھی رکھ لیا جاتا تاکہ تقرر کمیٹی میں صرف اس کا پلڑا بھاری نہ رہے۔ راہول گاندھی نے اس بارے میں لوک سبھا میں ہی اپنا خیال ظاہر کردیا تھا جب وہ صدر جمہوریہ کے خطبہ پر بات کررہے تھے اور وزیراعظم نریندر مودی بھی وہاں بیٹھ کر سن رہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ کچھ دن میں چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے کمیٹی کا اجلاس ہورہا ہے جس میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ شامل ہیں اس کا مطلب 2:1 تناسب ہے ایسے میں مجھے کیوں اجلاس میں جانا چاہئے۔ اس کا کیا فائدہ؟ کمیٹی سے آخر چیف جسٹس کو کیوں ہٹایا گیا۔ اس پر مباحث ہونے چاہئے۔ اگر چیف جسٹس کمیٹی میں شامل ہوتے تو وہ اور قائد حزب اختلاف حکومت کے موقف سے اختلاف کرسکتے تھے۔ اس سے پہلے جب چیف جسٹس تقرراتی کمیٹی کے رکن نہیں تھے تب صدر جمہوریہ کی جانب سے وزیراعظم اور کابینہ کے مشورہ پر الیکشن کمشنروں کے تقررات کئے جاتے تھے۔ اس عمل سے اچھے الیکشن کمشنران بھی ملے اور اوسط بھی۔ جے ایم لنگڈو اور ٹی این سیشن اسی عمل سے آئے لیکن حقیقت میں وہ صورتحال صحیح نہیں تھی۔ الیکشن کمشنروں کے تقرر پر حکومت اپنے حق کا استعمال کرہی جاتی تھی تب ہی تو سپریم کورٹ نے اسے جاری نہیں رکھا لیکن مودی حکومت نے جو نظام بنایا اس میں بھی حکومت کا ہی پلڑا بھاری ہے تب پھر سپریم کورٹ کی سماعت اور فیصلہ سے کیا بدلا۔ امریکہ میں جب دستوری اہمیت کے حامل اداروں کے سربراہوں کے تقررات ہوتے ہیں تو ان کا باقاعدہ کانگریس یعنی وہاں کی پارلیمنٹ میں انٹرویو ہوتا ہے سب کے سامنے سماعت ہوتی ہے ان سے سوال و جواب ہوتے ہیں اس ساری کاروائی کو وہاں کے عوام دیکھتے ہیں۔ میڈیا میں شائع ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر مخالفت ہوئی اور اپنے بچائو میں امیدوار نے کیا جواب دیا۔ ہندوستان میں یہ سب پتہ بھی نہیں چلتا۔ مودی حکومت چیف الیکشن کمشنر کو لے کر کیا کرتی ہے اسے سمجھنے کے لیے آپ صرف اس وقت کے تبصروں اور تنقیدوں کو اٹھاکر دیکھ لیجئے جب سپریم کورٹ میں ارون گوئل کے الیکشن کمشنر بنائے جانے کو لے کر چیلنج کیا گیا تھا۔ صرف اس ایک معاملہ میں نہیں بلکہ کس طرح سے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے سربراہ کو کئی سارے توسیع دی جاتی رہی تب اس معاملہ میں سپریم کور نے کیا کیا نہیں کہا۔ اس کے بعد آپ کو یہ سمجھنے کے لیے بہت محنت نہیں کرنی پڑے گی کہ حکومت ان اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے یا انہیں اامادانہ کام کرنے کی چھوٹ دینا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ میں جب راتوں رات ارون گوئل کو الیکشن کمشنر بنانے کے معاملہ میں سماعت ہورہی تھی۔ تب عدالت کے سوال سے صاف ہوجاتا ہے کہ حکومت کی نظر الیکشن کمیشن پر پڑچکی تھی اس معاملہ میں ADR نے درخواست داخل کی اور پرشانت بھوشن وکیل تھے۔ عدالت نے چراغ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے تقرر میں اتنی جلدی کیوں کی گئی۔ عدالت نے حکومت نے حکومت سے اندرون 24 گھنٹے جانکاری مانگے کہ بتائیں یہ سب کہیں ہوا۔ جسٹس انیرودھ بوس نے کہا کہ تقرر کو لے کر کوئی اصول نہیں لیکن ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کے عمل سے ایسے فرد کا تقرر ہوسکتا ہے جو آزاد ہو ہمیں ایسے الیکشن کمشنران چاہئے جو جی حضوریئے نہ بنیں جو گھٹنوں پر رینگے نہیں بلکہ ضرورت پڑے تو وزیراعظم پر بھی کاروائی کرے۔