امبیڈکر نے جامع دستور بناکر ہندوستانی عوام پر احسان کیا : محمد ادیب

   

دستور ہند کے معمار کی توہین ناقابل برداشت ۔ مسلمان ‘ دلتوں کے ساتھ احتجاج کریں۔ صدر انڈین مسلم فار سیول رائیٹس کا بیان

نئی دہلی : انڈین مسلم فار سول رائٹس کے صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر پر وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔انہوں نے آج یہاں جاری ایک بیان میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص کو آئین کی پاسداری کا خیال رکھنا تھا آج اسی نے بابا صاحب کی توہین کرآئین کا مذاق اڑایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امیت شاہ نے صرف بابا صاحب کی توہین ہی نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے آئین اور دلتوں کے تئیں اپنا نظریہ واضح کر دیا ہے ۔ سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے کہا کہ حیرت ہے کہ اس شخص کو معافی مانگنی چاہیے تھی، یہ اور اسکی پارٹی دفاع کرتی گھوم رہی ہے ۔انہوں نے کانگریس کے سینئر لیڈر اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے رہنما راہول گاندھی کے ساتھ دھکم پیل کے واقعہ پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے اسے بی جے پی کی سازش قرار دیا،انہوں نے کہا کہ بی جی پی لیڈران نے اپوزیشن لیڈران کو ایوان میں داخلے سے روکا اور دھکم پیل کی تاکہ عوام کا دھیان امیت شاہ کے بیان سے ہٹ جائے اور جو توہین بابا صاحب اور دلتوں کی امیت شاہ نے کی ہے وہ عوام بھول جائیں۔ محمد ادیب نے کہا کہ یہ نہ صرف آئین اور دلتوں کا مذاق اڑایا گیا ہے بلکہ مسلمانوں، پچھڑوں اور سماج کے ہر اس انسان کا مذاق اڑایا گیا ہے جسے بابا صاحب نے آئین کے ذریعے مساوات اور برابری کا حق دیا ہے ۔آئی ایم سی آر کے صدر نے کہا کہ ہم مسلمان بابا صاحب کے شکرگزار اور احسان مند ہیں کہ انہوں نے ملک کو ایک جامع آئین دیا اگر یہ آئین نہیں ہوتا اور مسلمانوں کو آئین کے تحت حاصل اختیارات نہیں دیئے ہوتے تو مسلمانوں کا اس ملک میں رہ پانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم اس ملک میں اگر عزت اور وقار سے ہیں تو یہ بابا صاحب کی وجہ سے ممکن ہے ۔ محمد ادیب نے کہا کہ مسلمان ہی نہیں سماج کا ہر شخص امیت شاہ کے بیان کو مسترد کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ ہے کہ وزیر داخلہ سے فوراً استعفی طلب کر ان پر کاروائی کی جائے ۔ محمد ادیب نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے دلت بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور دلت بھائیوں کے ساتھ سڑکوں پر اتر کر امیت شاہ سے معافی کا مطالبہ کرکے اس وقت تک خاموش نہ بیٹھیں جب تک وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیتے ۔