دنیا کا سوپر پاور (طاقت ور) ملک امریکا بھی بے روزگاری کے دلدل میں پھنس گیا ہے، اور اس سال روزگاری کی شرح پچاس سال میں سب سے کم سطح آ پہونچ چکی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی خبریں آ رہی ہے کہ امریکی ڈالر کی قیمت بھی گھٹ گئی ہے۔
امریکہ کے محکمہ محنت نے جمعہ کے دن یہ واضح کیا کہ ستمبر میں ملک کی بے روزگاری کی شرح 3.5 فیصد پر آ گئی ہے، جو 50 سالوں میں سب سے کم سطح شمار کی گئی ہے۔ خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، محکمہ محنت نے کہا ہے کہ پچھلے ماہ نان فارم پیرول روزگار میں 136،000 ملازمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ پر اپنا انتخاب لڑا تھا اور اسی کے نام پر ووٹ حاصل کئے۔ یہ اعداد و شمار ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب یہ مستقل اطلاعات مل رہی ہیں کہ امریکہ کی معاشی صورتحال مسلسل کمزور ہوتی جارہی ہے۔
ملی اطلاع کے مطابق، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں 10 سال کی سب سے بڑی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے ، جبکہ خدمت کے شعبے میں سستی 2016 کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ اور چین کے مابین تجارتی جنگ نے تاجروں کو بری طرح متاثر کیاہے ور اس سے سرمایہ کاری اور مینوفیکچرنگ کو بہت نقصان ہوا ہے۔ دوسری طرف، امریکی معیشت میں زوال کے ساتھ، بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ فیڈرل ریزرو بینک کو ایک بار پھر سود کی شرحوں میں کمی کرنے کا موقع آسکتا ہے۔ گرتی معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی ریزرو بینک نے پچھلے تین ماہ میں 2 بار سود کی شرحوں میں کمی کی ہے۔ 2008 کے بعد پہلی بار جولائی میں سود کی شرحوں میں کمی کی گئی۔ دو ماہ بعد، ستمبر میں بھی ریزرو بینک کو کٹوتی کرنا پڑی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 6 اہم کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی مضبوطی کا کی علامت ڈالر انڈیکس 0.06 فیصد کی کمی سے 98.8042 پر رہنے کی اطلاع ملی رہی ہے۔