امید پورٹل کی مدت میں توسیع سے گریز کرنا ذمہ دارانِ وقف پر ظلم سے کم نہیں

   

ایک طرف قیمتی دستاویزات سے بھرا ریکارڈ روم بند تو دوسری طرف دستاویزات آن لائن داخل کرنے کی مدت میں توسیع سے مرکز کا گریز معنی خیز
حیدرآباد 30نومبر(پریس نوٹ) وقف جائیدادوں کی تفصیلات کواْ مید پورٹل پر اپ لوڈ کرنے کا عمل متعلقہ ذمہ داراں کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ناکافی وقت اور پیچیدہ سوالات سے بھری آن لائن درخواست نے مانو ذمہ داران وقف کو جلتے ہوئے کوئلوں پرلا کھڑا کردیا ہے۔کم وقت میں اس قدر گنجلک کام کی تکمیل کا بوجھ ذمہ دارانِ وقف پر لاد دیے جانے کو رکن ریاستی وقف بورڈ مولانا سید بندگی بادشاہ قادری نے سراسر زیادتی بلکہ ظلم قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ آن لائن درخواست میں فراہم کردہ معمولی نوعیت کا بنیادی سوال بھی تفصیلات کی ایک مکمل زنبیل پیش کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ مولانا بندگی بادشاہ نے بتایاکہ کئی وقف ادارہ جات کے تحت تفصیلات کو اپ لوڈ کرنے کا کام کئی دن تک ٹھپ رہا کیونکہ امید پورٹل میں تلنگانہ ریاست اور اس کے اضلاع کی نشاندہی ہوہی نہیں پارہی تھی۔محض ایک ماہ قبل یہ تفصیلات ویب سائٹ میں شامل کی گئیں۔اتنی قلیل مدت میں بھی وقف بورڈ نے تقریباً 24ہزار وقف ادارہ جات کے اندراج کا کام مکمل کیا۔ اگرچیکہ ریاست تلنگانہ میں 33,995وقف جائیدادیں ہیں لیکن وقف بورڈ اتنی ہی جائیدادوں کی تفصیلات اپنی ذمہ داری پر اپ لوڈ کر پائے گاجتنی کے اس کے پاس درج رجسٹر ہیں۔ جہاں تک بات موروثی متولیان کی ہے تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طور پر دستاویزات اکٹھاکرکے اپ لوڈ کریں۔ایسے میں ان متولیان کے لیے ضروری ریکارڈز جمع کرنے کا ذریعہ محض تین محکمہ جات جیسے وقف بورڈ‘ CCLA اور محکمہ آثار قدیمہ ہیں جہاں سے انھیں ساری تفصیلات اکٹھاکر نا ہے۔ اگرچیکہ آثار قدیمہ تفصیلات فراہم کرنے میں بڑی حد تک معاونت کررہا ہے لیکن CCLAکا اردو ریکارڈ روم‘جہاں اردو دستاویزات‘ اسناد‘ کتبے‘‘ عطیات مشروط الخدمات اور دیگر وقف شواہد وغیرہ محفوظ ہیں‘ بند پڑا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف ریکارڈ روم بند پڑا ہے تو دوسری طرف نظام دور حکومت کی ساری وقف جائیدادوں کی تعریف و تفصیل کا سارا ڈھیر اسی کمرے میں بند ہے۔ وہاں کوئی نگران کار مقرر نہیں ہے جو درخواست کرنے پر ساری تفصیلات آناً فاناً میں سپرد کردے۔ نظام دور حکومت میں مشروط الخدمات متولیوں کے نسل درنسل تقررات کے سارے امور محکمہ عطیات کے تحت انجام دیے جاتے تھے اور اس محکمہ کے سارے ریکارڈ اس وقت CCLAکے ریکارڈ روم میں موجود ہیں۔ ریکارڈ روم کے لیے کوئی اردو آفیسر مقرر نہیں ہے۔ سابق میں جو نگرانکار تھے ایک ایک کرکے سبکدوش ہوگئے۔ آخری نگران کار کی اچانک موت کے بعد تو ریکارڈ روم ’’گرد دان‘‘ میں تبدیل ہوگیا اور عمارت بھی مخدوش ہوچکی ہے۔اب اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ سکریٹری برائے حکومت محکمہ اقلیتی بہبود کے سرکاری احکامات کے باوجود ان بیش قیمتی ریکارڈز کو اسٹیٹ آرکائیوز منتقل نہیں کیاگیا جہاں اردو /فارسی داں عہدیدار کی خدمات دستیاب ہیں۔ مولانا بندگی بادشاہ نے بتایا کہ اضلاع خاص کر حیدرآباد‘ رنگاریڈی‘ محبوب نگر‘ ملکاج گری‘ سنگاریڈی‘ عادل آباد اور نلگنڈہ میں موجودسینکڑوں ایکڑ وقف اراضی سے متعلق ہزاروں دستاویزات ریکارڈ روم کی پناہ میں ہیں جو زیادہ تر اردو‘ فارسی اور عربی زبانوں میں ہیں۔یہ انتہائی اہم دستاویزات ہیں جووقف ادارہ جات کے مالکانہ حقوق ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ قانونی تنازعات میں مصدقہ دستاویزی ثبوت کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ مولانا بندگی بادشاہ نے ریکارڈ روم تک رسائی کے ذریعہ بند کیے جانے پر اظہارِ تاسف کرتے ہوئے بتایا کہ ’’برسوں سے بند پڑے اس ریکارڈ روم میں ان قیمتی دستاویزات کاتحفظ اب ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ریکارڈ روم کے اندر موجود دستاویزات کس حال میں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دستاویزات کو جلد از جلد ڈیجیٹالائز کرکے محفوظ کیا جائے۔‘‘ غور طلب بات یہ ہے کہ CCLAکو لاکر روم کے امو ر کی دیکھ ریکھ کے لیے‘ جس میں نظام دورِ حکومت کے زائد از ایک لاکھ دستاویزات محفوظ ہیں‘اردو آفیسر فراہم کرنے گذشتہ پانچ برسوں میں متعدد بار کی درخواست کی گئی جو آج تک ثمر آور ثابت نہ ہوسکی۔ ایک طرف حکومت‘وقف ذمہ داران سے وقف ریکارڈز پوچھ رہی ہے تو دوسری طرف ریکارڈ روم کو بند کر کے رکھا گیا ہے۔یہ ساری صورتحال ایسی ہی ہے ’’پیاسے شخص کو پانی کے لیے دوڑتے رہنے پر مجبور کرنے جیسا ہے۔‘‘ اگرچیکہ اس سلسلہ میں وزیر اعلیٰ جناب اے ریونت ریڈی اور چیف سکریٹری کے راما کرشنا راؤ کو ایک مکتوب روانہ کرکے تاریخی اہمیت کے حامل ان وقف دستاویزات کی حفاظت کے فوری انتظامات روبہ عمل لانے کی درخواست کی گئی ہے اور امید ہے کہ حکومت اس سلسلہ میں فوری طور پر کوئی مناسب قدم اٹھائے گی۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ آخری تاریخ کا ذکر وقف ترمیم قانون میں موجود ہے اس لیے پارلیمنٹ میں اس کو پیش کرکے ہی توسیع کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ادارہ جات کے ذمہ داران انفرادی طور پر ٹرائبونل کے ذریعہ توسیع طلب کرنے کے مجاز ہیں۔ رہی بات امید پورٹل کی تو چار دن پہلے بھی اس میں اپ گریڈیشن کیا گیا ہے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری وزیر اعظم‘ مرکز اور خاص کر وزیر اقلیتی بہبود سے التجا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ایک آرڈیننس پاس کرکے تاریخ میں توسیع کی راہ ہموار کریں تاکہ وقف ذمہ داران کو درپیش مسائل کا ازالہ ہوسکے۔ مولانا بندگی بادشاہ نے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ وہ ذمہ داران وقف کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے وقف دستاویزات کو امید پورٹل پر اپ لوڈ کرنے کی مدت میں فوری توسیع کی ضرورت کو سمجھے اور ساتھ ہی ساتھ CCLAکے ریکارڈ روم کو کھلواکر وہاں سے دستاویزات کی نقول حاصل کرنے کی راہ ہموار کرے کیونکہ وقف تفصیلات اپ لوڈ کرنے کے لیے متعلقہ محکمہ جات و ادارہ جات سے دستاویزات کا حصول ضروری ہے۔