کرن تھاپر
بارک اوباما کی خودنوشت سوانح عمری کے بیشتر چبھتے ہوئے ابواب میں سے پہلے باب میں پاکستان کی جانب سے 2011 میں اسامہ بن لادن کے بارے میں تیقن ناکام ہو جانے کا تذکرہ ہے۔ یہ باب نمبر 27 کے 673 ویں صفحہ پر جو 902 صفحات پر مشتمل خودنوشت سوانح عمری کا باب ہے اگر ابتداء سے اس کو پڑھا جائے تو ایسی کوئی بات نظر نہیں آئے گی جو قابل ذکر ہو اور تحریر کی رو یا اس کے لب و لہجہ کی مجبوری کا نتیجہ ہو۔
اس طرح اوباما اس لمحہ کو یاد کرتے ہیں جبکہ انہیں بن لادن کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی تھی۔ انہوں نے اتنی جلدی اس کی امید نہیں رکھی تھی۔ ہم سنتے ہیں کہ مائیک رابن اور لیون کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔ تقریباً بیک وقت انہوں نے ایسے الفاظ ادا کئے تھے جس کی ادائیگی کے وہ منتظر تھے۔ دشمن کارروائی میں ہلاک ہوگیا۔ ایک کانفرنس کے کمرہ میں ان کی ہانپنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہم نے اسے ہلاک کردیا۔ انہوں نے نرم لب و لہجہ میں یہ بات کہی تھی۔
کئی گھنٹوں بعد اوباما نے اپنی بیوی مشل کو اس کی اطلاع دی۔ اس بار انہوں نے اس یادگار لمحہ کے تمام پہلووں کا اور اس کے معمولی واقعہ ہونے کے تمام پہلووں کا جائزہ لیا۔ ’’میں ابھی ابھی شیو کرنا مکمل کرچکا تھا اور سوٹ پہن رہا تھا اس کے بعد وہ اپنی بیوی کی دہلیز پر گیا اس نے کہا چنانچہ انہوں نے کامیابی کی نشانی بنائی اور ان کی بیوی مسکرانے لگیں۔ انہیں کھینچا اور بغلگیر ہوگئیں‘‘۔ یہ حیرت انگیز واقعہ ہے، حقیقت میں آپ کیسے محسوس کرتے ہیں؟ فی الحال میں نے راحت کی سانس لی ہے۔ انہوں نے کہا لیکن چند گھنٹوں بعد تفصیلات کا علم ہو جائے گا۔
تاہم ایک سوال جس کا جواب اوباما نے نہیں دیا یا جس کی یکسوئی نہیں کی وہ پاکستان کے اس معاملہ میں کردار کے بارے میں ہے۔ کیا پاکستان بن لادن کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھا؟ چنانچہ کیا ایک پچیدہ مسئلہ تھا؟ یا پھر اسے اس کی موجودگی کی اطلاع نہیں تھی؟ چونکہ اس کی معلومات نامکمل تھیں۔ مجھے ان کی خاموشی پر حیرت ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے اور کوئی بھی اس سے واقف ہوسکتا ہے۔ وہ اس وقت امریکہ کے صدر تھے چنانچہ انہیں اس سے واقف ہونا چاہئے تھا۔
2017 میں جب اوباما ہندوستان ٹائمز کی قیادت کی چوٹی کانفرنس میں ایک چمکدار ستارے کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے اور میں نے ان سے سوال کیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ان کا انتظامیہ کوئی ایسا ثبوت حاصل نہیں کرسکا جس سے بن لادن کی موجودگی کا علم پاکستان کو تھا، تاہم انہوں نے مزید کہا کہ میں اس بیان کا آپ جو کچھ مطلب نکالتے ہیں وہ آپ کی سمجھ پر چھوڑتا ہوں۔
یہ ایسا کوئی موقع نہیں تھا جس کو میں ضائع کردیتا۔ وہ مجھے ترغیب دے رہے تھے کہ میں اپنے طور پر کوئی نتیجہ اخذ کروں اور میں نے یہ بات ان کو پیش کردی۔ ’’چنانچہ یہ نااہلیت تھی؟‘‘ سابق صدر نے کچھ نہیں کہا، وہ اس جھگڑے میں مزید الجھنا نہیں چاہتے تھے وہ صرف مسکرادیئے۔
اتفاق کی بات ہے کہ میں نے یہی سوال سابق صدر پاکستان پرویز مشرف سے ہندوستان ٹائمز کی قیادت چوٹی کانفرنس میں چند سال قبل کیا تھا۔ جب میں نے پوچھا تھا کہ کیا پاکستان اس میں ملوث تھا یا نااہل تھا؟ انہوں نے حیرت انگیز رویہ اختیار کیا لیکن وہ اس سوال کو مزاحیہ انداز میں تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انٹر سرویسیس انٹلی جنس (ISI) سوگئی تھی۔ ’’کیا یہ گریز تھا یا نہیں تھا‘‘ لیکن مشرف متفق نہ ہونے کا پختہ ارادہ کئے ہوئے تھے۔ ’’نہیں ہمیں کہنا چاہئے کہ آئی ایس آئی سوگئی تھی‘‘۔ پھر وہ معنی خیز انداز میں مسکرائے ’’آئی ایس آئی کو حق ہے کہ وہ وقفہ وقفہ سے سوتی رہے‘‘۔
میں نے یہ کہانی اوباما کے سامنے دہرائی اور مجھے امید تھی کہ ممکن ہے کہ یہ انہیں ترغیب دے گی لیکن وہ صرف ہنس دیئے اور مزید کچھ نہیں کہا۔
تاہم اپنی کتاب میں اوباما نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ اشفاق کیانی اور صدر آصف زرداری کے انکشافات کیا تھے۔ اس وقت جوائنٹ چیفس کے صدر نشین اڈمیرل مولین نے کیانی کو فون کیا، اوباما کہتے ہیں کہ بات چیت نرم لب و لہجہ کی تھی لیکن کیانی نے درخواست کی تھی کہ ہمیں اس دھاوے کے بارے میں وضاحت کرنی چاہئے اور جتنی جلد ممکن ہو ایسا کیا جانا چاہئے تاکہ ان افراد کی مدد ہوسکے جو اس کارروائی کے ذمہ دار تھے اور عوام کے ردعمل کا سامنا کرسکتے تھے۔
اس کے برعکس زرداری کا جواب تقریباً قابل تعریف تھا ’’میں توقع کرتا تھا کہ یہ صدر پاکستان کے لئے پریشان کن اور مشکل ٹیلی فون کال ثابت ہوگی۔ اب سیاسی یادیں آسانی سے نہیں کی جاسکتیں۔ اس لئے کہ آپ نہیں جانتے کہ اس میں سے کونسی باتیں حقیقت ہیں اور کن کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے۔
باب 27 میں کہا گیا ہے کہ اوباما کو کثیر تعداد میں تائید حاصل تھی۔ بے شک بعض پوشیدہ باتیں وہ اپنے ساتھ قبر میں لے جائیں گے لیکن انہیں کم از کم یہ ضرور انکشاف کرنا چاہئے کہ پاکستان کا کردار پچیدہ تھا یا پھر وہ نااہل تھا؟ باوجود اس کے کہ یہ کہانی خوشی سے سنائی گئی ہے لیکن اس مسئلہ پر ان کی خاموشی بھی کسی آواز سے کم نہیں۔ انہوں نے اس معمہ کو حل نہیں کیا لیکن سوال کرنے کا موقع ضائع نہیں ہوا۔