اور مسجد بھی وفاداروں کو تکتی رہ گئی

   

مصالحت کے نام پر رام مندر کی سازش
کلبھوشن جادھو … مودی ۔عمران خاں فکسنگ

رشیدالدین
نریندر مودی نے دوسری مرتبہ اقتدار ملتے ہی ہندوتوا ایجنڈہ پر توجہ مرکوز کردی ہے۔ رام مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کا دباؤ بڑھنے لگا ہے۔ ایسے میں حکومت عدالت کی آڑ میں مندر کے خواب کو پورا کرنا چاہتی ہے۔ 2010 ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 2.77 ایکر متنازعہ اراضی تینوں فریقین میں تقسیم کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ اگر اس وقت مرکز میں بی جے پی حکومت ہوتی تو کسی بھی طرح عدالتی احکامات پر عمل آوری کی کوشش کی جاتی۔ عدالت کے باہر قابل قبول حل تلاش کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی راست نگرانی میں تین رکنی مصالحتی گروپ تشکیل دیا گیا ۔ عدالت نے مصالحتی کمیٹی کو 31 جولائی تک مہلت دیتے ہوئے یکم اگست کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ر پورٹ کی بنیاد پر اراضی ملکیت معاملہ کی آئندہ سماعت کا انحصار رہے گا۔ مصالحتی کمیٹی کے کام کاج میں جس طرح کی توسیع دی گئی، شبہ ہونے لگا ہے کہ یہ گیم پلان مندر کی تعمیر کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ متنازعہ مقام یعنی مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کی ساری منصوبہ بندی اور سازش تیار کرلی گئی ہے ۔ اب صرف عدالت کی منظوری کا انتظار ہے۔ عدالت کے باہر باہمی رضامندی سے قابل قبول حل تلاش کرنے کا مقصد رام مندر کی راہ ہموار کرنا ہے۔ تقریباً 25 سال سے جاری اس تنازعہ کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ دستور ، قانون اور دستاویزی شواہد کی بنیاد پر ہونا چاہئے لیکن یہاں تو معاملہ آستھا اور عقیدہ کی بنیاد پر کیا جارہا ہے ۔ جب آستھا اور عقیدہ کی بنیاد پر فیصلہ ہو تو فریقین کے جذبات کا احترام ہونا چاہئے ۔ جب اکثریتی فرقہ کی آستھا کا خیال ہے تو ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے عقیدہ کو کس طرح فراموش کیا جاسکتا ہے۔ رام کا جنم استھان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کسی کا آستھا ہے تو مسجد تاقیامت مسجد رہتی ہے، یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ عدالت کا کام تاریخی شواہد اور دستاویزی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے نہ کہ آستھا اور عقیدہ کی بنیاد پر۔ عدالت کے باہر حل تلاش کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن اس سے قبل 6 ڈسمبر 1992 ء کا موقف بحال کرتے ہوئے مصالحت کریں۔ مسجد شہید کرتے ہوئے اس کی جگہ عارضی مندر تعمیر کردیا گیا ۔ دوسرے معنوں میں مسجد کی اراضی پر غاصبانہ قبضہ ہے ، پھر مصالحت کا مطلب مسجد کی جگہ سے مندر کے حق میں دستبرداری ہوگا۔ اقتدار کی آڑ میں فریق ثانی پر مسجد سے دستبرداری کیلئے دباؤ بنایا جاسکتا ہے ۔ ویسے بھی مسلمانوں میں میر جعفر اور میر صادق کے وارثوں کی کمی نہیں ، جو وقفہ وقفہ سے سنگھ پریوار کی زبان میں بات کر رہے ہیں۔

مصالحت کے نام پر ایسے نام نہاد عناصر کو مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ عدالت سے باہر تنازعہ کی یکسوئی کیلئے سابق میں تین مرتبہ کوشش کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ عدالت کی جانب سے ثالثی کمیٹی کا قیام چوتھی کوشش ہے اور کمیٹی میں ایسے شخص کو شامل کیا گیا جس نے رام مندر کی تعمیر کے حق میں پہلے ہی اپنی رائے ظاہر کردی تھی۔ مندرکے حق میں رائے رکھنے والے شخص کی موجودگی میں کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ مصالحت کمیٹی کی رپورٹ غیر جانبدارانہ ہوگی۔ سپریم کورٹ نے 25 جولائی سے مقدمہ کی باقاعدہ سماعت کا اعلان کیا تھا لیکن اچانک مصالحتی کمیٹی کو ایک ہفتہ کا مزید وقت دے دیا گیا جس سے کئی شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عدالت خود سودے بازی کا موقع فراہم کر رہی ہے اور معاہدہ پر اپنی مہر لگا دے گی۔ موجودہ حالات کے تنازعہ میں اندیشہ اس بات کا ہے کہ مصالحتی کارروائی میں مسلم فریق کا موقف کمزور اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کا موقف سخت رہے گا ۔ قانون کی آڑ میں مسجد کی وہ اراضی کو جہاں عارضی مندر تعمیر کیا گیا، سنگھ پریوار کے حوالہ کیا جاسکتا ہے ۔ رام مندر کے حامی ایک طرف متحرک ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی بے حسی آخری منزل میں ہے۔ سیاسی اور مذہبی قیادت، تنظیمیں اور جماعتوں کو مسجد کی بازیابی سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ یہ تمام خاموش تماشائی کا رول ادا کر رہے ہیں ۔ ان کی بے حسی مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کے حق میں خاموش تائید کی طرح ہے۔ اگر مسجد کی اراضی فریق ثانی کو الاٹ کردی جائے تب بھی کوئی مزاحمت اور رکاوٹ کا امکان نہیں ہے ۔ وہ اس لئے بعض قیادتیں مصلحتوں کا شکار ہیں تو بعض مفادات کے اسیر ہیں۔ باقی جو کچھ بھی ہیں وہ خوفزدہ ہیں کہ کہیں ان کے خلاف انتقامی کارروائی نہ کی جائے ۔ مصالحتی کمیٹی سے جانبداری کی بو آرہی ہے، لہذا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے واضح کردیا کہ عدالت کے باہر تصفیہ کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ سپریم کورٹ میں قانونی ، دستوری اور دستاویزی شواہد کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ مضبوط ہے، اس کے باوجود عدالت کے باہر تصفیہ کے نام پر مسلمانوں کو مسجد کی جگہ سے محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ کمیٹی سے متنازعہ اراضی کو مسجد کی تعمیر کیلئے حوالہ کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لہذا یکم اگست کو سپریم کورٹ میں کمیٹی کی رپورٹ پر ہر کسی کی نظر رہے گی۔ مندر کے حدود کے باہر مسجد کی تعمیر کیلئے اراضی الاٹ کی جاسکتی ہے، لیکن مسجد کی تعمیر شائد ہی کبھی ہوسکے۔ مسلمانوں کے موجودہ حالات کا رونا رونے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا اور صرف قیادتوں سے امید رکھنا اس لئے بھی عبث ہے کیونکہ جب تک قوم میں بے حسی برقرار رہے گی، اس وقت تک قیادت بھی انہیں بیدار نہیں کرسکتی۔

عالمی عدالت میں کلبھوشن جادھو کی پھانسی پر روک لگادیئے جانے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سفارتی سطح پر صورتحال میں بہتری کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ جاسوسی کے الزام میں پاکستانی عدالت نے کلبھوشن جادھو کو موت کی سزا سنائی تھی، جسے ہندوستان نے عالمی عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ عمران خاں کے وزیراعظم کے عہدہ پرفائز ہونے کے بعد سے دونوں ممالک میں خیر سگالی کے تبادلہ کا نیا انداز دیکھا گیا۔ نریندر مودی جو نواز شریف سے دوستانہ تعلقات کے سلسلہ میں کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے عمران خاں سے بھی روابط کو استوار کرنا شروع کردیا ہے۔ عمران خاں جو کرکٹر کی حیثیت سے کھیل کے تمام داؤ پیچ سے اچھی طرح واقف ہیں، وہ سیاسی میدان میں بھی مختلف ممالک کو اپنا ہمنوا بنانے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نجات دلانے کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض کی معافی کو یقینی بنانے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ امریکہ کے دورہ سے عین قبل عمران خاں نے حافظ سعید کو گرفتار کیا۔ کشمیر کے پلوامہ میں فوجی قافلہ پر حملہ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ ہندوستان نے سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ فضائی کارروائی میں ہندوستان کا ایک پائلٹ پاکستان کی تحویل میں آگیا۔ پائلٹ کی رہائی کو ہندوستان کی جانب سے سیاسی رنگ دینے سے قبل ہی عمران خاں نے خیرسگالی کے طور پر پائلٹ کو رہا کردیا تھا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق عمران خاں اور نریندر مودی کلبھوشن جادھو کے مسئلہ پر میچ فکسنگ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی کشیدگی کے سلسلہ میں دونوں کا موقف بظاہر سخت تھا لیکن اپنے اپنے ملک میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ عمران خاں دنیا کے وہ پہلے غیر ملکی رہنما ہیں جنہوں نے لوک سبھا انتخابات سے قبل نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی کی نہ صرف پیش قیاسی کی تھی بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے انہیں بہتر قرار دیا تھا ۔ دونوں ممالک کی کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ پاکستان نے ہندوستانی طیاروں کے لئے اپنے فضائی حدود کو بند کردیا تھا لیکن گزشتہ دنوں یہ پابندی ختم کردی گئی۔ کلبھوشن جادھو کی سزا پر عالمی عدالت کی جانب سے روک لگانے کے بعد یہ امید کی جارہی ہے کہ عمران خاں پھر ایک بار خیر سگالی کے نام پر جادھو کو ہندوستان کے حوالے کردیں گے ۔ پاکستانی حکومت نے ہندوستانی سفارتی عہدیداروں کو جادھو سے ملاقات کا موقع فراہم کیا ہے۔ پائلٹ کی رہائی سے لے کر حافظ سعید کی گرفتاری تک یہ تمام اقدامات نریندر مودی کی تشفی کے لئے کئے جارہے ہیں۔ مودی اور ان کے ساتھی پاکستان پر تنقید کا کوئی موقع نہیں گنواتے لیکن بیرونی دورہ کے موقع پر مودی نے عمران خاں کی مبارکباد کو قبول کیا اور بظاہر دور دور دکھائی دیئے لیکن علیک سلیک کرتے ہوئے اپنی اندرونی محبت کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے نریندر مودی کے حق میں اچانک محبت کے پھول کیوں برسائے جارہے ہیں۔ ہندوستان نے عالمی سطح پر پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ ایسے میں پاکستان کو عالمی برادری کی تنقیدوں سے بچنے کے لئے نریندر مودی کو خوش کرنا ہوگا ۔ ویسے بھی دونوں ممالک کے بہتر تعلقات سے عوام کا بھلا ہوگا۔ کشیدگی سے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے جبکہ باہمی رشتوںکے استحکام کے ذریعہ تجارت کے شعبہ کو فروغ دیتے ہوئے سرحدی علاقوں میں بسنے والے لاکھوں خاندانوں کو معاشی بدحالی سے بچایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف ملک میں بی جے پی نے کانگریس زیر اقتدار ریاستوں کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس سلسلہ میں گوا کے بعد کرناٹک کو نشانہ بنایا گیا۔ دونوں ریاستوں میں کانگریس ارکان اسمبلی کے بڑے پیمانہ پر انحراف کی راہ ہموار کی گئی ۔ کرناٹک جہاں کانگریس اور جے ڈی یو کی مخلوط حکومت ہے، باغی ارکان کی مدد سے یدی یورپا کو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کرنے کی تیاری ہے۔ اگلا نشانہ راجستھان اور مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومتیں ہوسکتی ہیں۔ شائد اسی صورتحال کو بھانپ کر راہول گاندھی نے پارٹی کی صدارت سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا ۔ لوک سبھا نتائج کے بعد راہول گاندھی کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ بی جے پی دیگر ریاستوں میں عدم استحکام پیدا کرے گی۔ سیاسی بصیرت کے تحت انہوں نے استعفیٰ کا فیصلہ کیا اور ابھی تک اس پر قائم ہیں۔ اگر وہ عہدہ پر برقرار ہوتے تو گوا اور کرناٹک کے حالات کے لئے انہیں دوبارہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ رام مندر کی سرگرمیوں پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بے بسی مسجد کے میناروں کو تکتی رہ گئی
اور مسجد بھی وفاداروں کو تکتی رہ گئی