اوٹی کا نظام پیالیس خستہ حالی کا شکار ، عدم توجہی سے کھنڈر میں تبدیل

   

آصف جاہی ورثہ بحران میں ، اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی خاموش داستان ، تاریخی محل کا تحفظ ضروری
حیدرآباد ۔ یکم ۔ دسمبر : ( سیاست نیوز ) : نیلگری کے پہاڑیوں کے دامن میں گھانس کے میدانوں ، چائے کے باغات اور دیودار کے درختوں کے درمیان واقع او ٹی کا نظام محل جو کبھی یوروپی طرز تعمیر کی ایک شاندار شاہکار عمارت تھا ۔ آج خستہ حالی کا شکار ہوگیا اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی خاموش داستان سناتا ہے ۔ یہ وہی عمارت جسے ساتویں نظام میر عثمان علی خاں نے اس وقت خریدا تھا جب انہیں حیدرآباد کی شدید گرمی سے بچنے کے لیے ایک ٹھنڈی اور پر سکون آرام گاہ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ مدراس کے برطانوی ہائی کمشنر روڈس نے انہیں اطلاع دی کہ 1860 میں تعمیر شدہ سیڈرس بنگلہ فروخت کیلئے دستیاب ہے جس پر نظام نے فوراً اسے خرید لیا ۔ محل کے بڑے چراغ ، شاہی فرنیچر ، لکڑی کا نفیس کام ، بلند محرابیں ، اونچی کھڑکیاں اور سرسبز باغ اس عمارت کو حقیقی معنوں میں شاہی شان بخشتے تھے ۔ یہ محل ایک زمانے میں برطانوی باشندے ، سرولیم بردھن کی گرمیوں کی رہائش گاہ بھی تھا ۔ وہ ہر سال اپنی بیوی بچوں کے ہمراہ اوٹی آتے اور چند ماہ اسی حویلی میں گزارتے تھے ۔ اسی محل میں ان کی بیٹی الزبتھ کی پیدائش ہوئی جس کے بعد میر عثمان علی خاں خود اپنے خاندان کے ساتھ اوٹی پہونچے اور نومولد کی خیریت دریافت کی ۔ اس واقعہ کے بشمول کئی تفصیلات کو بعد میں الزبتھ ہیلمٹن نے اپنی کتاب Feringis : Sir Robert and Sir Williams میں بھی درج کیا ہے ۔ ریاست حیدرآباد کے ہندوستان میں انضمام کے بعد یہ محل آصف جاہی خاندان کی ملکیت میں شامل رہا ۔ 2006 میں ماہر تعلیم پی سی تھامس نے نظام کے پوتے مکرم جاہ سے اس عمارت کو خرید کر ایک انٹرنیشنل اسکول قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی مگر عدالت نے واضح کیا کہ مکرم جاہ اس تاریخی جائیداد کو فروخت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ نظام فیملی ٹرسٹ کے بعض ارکان نے بھی موقف اپنایا کہ یہ محلات پورے آصف جاہی ورثے کی علامت ہیں اور کسی ایک فرد کے اختیار میں نہیں ہونے چاہئے ۔ وراثتی تنازعات اور برسوں کی بے توجہی کے باعث یہ تاریخی عمارت شدید خستہ حالی کا شکار ہوچکی ہے ۔ گزشتہ سال چند افراد نے جعلی دستاویزات تیار کرتے ہوئے 121 کروڑ روپئے مالیت کے اس محل کو ہتھیانے کی کوشش کی ۔ نظام خاندان کی رکن فاطمہ فوزیہ کی شکایت پر پولیس نے اس قبضے کی کوشش کو ناکام بنادیا ۔ کبھی شاہی عظمت کی علامت رہنے والی اس عمارت کی موجودہ حالت دیکھ کر مقامی لوگ اور سیاح بھی گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کررہے ہیں ۔ تحفظ ورثہ کے ماہرین بالخصوص اینٹک کی انورادھا ریڈی نے تلنگانہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ او ٹی میں موجود اس تاریخی محل کو فوری طور پر محفوظ کرنے کے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہے کہ یہ عمارت نہ صرف آصف جاہی دور کی ایک مضبوط علامت ہے ۔ بلکہ حیدرآبادی تہذیبی تاریخ کا بھی ایک حصہ ہے ۔ جس کے تنازعات حل کرتے ہوئے ایک محفوظ ثقافتی ورثے کے طور پر از سر نو ترقی دینے کے اقدامات کئے جائیں ۔۔ 2