اُردو کو تحقیق کی زبان بنانے سماجی علوم کے ماہرین کا مشورہ

   

اردو یونیورسٹی میں کانگریس کا اختتام۔ پروفیسر زبیر مینائی اور پروفیسر اروند انصاری کی مخاطبت
حیدرآباد، 30نومبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں کل شام تیسری قومی اردو سماجی علوم کانگریس کا اس اپیل کے ساتھ کا اختتام عمل میں آیا کہ اردو کو شعر و ادب کے ساتھ علوم کی تحقیق کی زبان بھی بنایا جائے۔ ’’21 ویں صدی میں سماجی علوم: اندیشے اور چیلنجس‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اس کانگریس کا انعقاد مرکز برائے فروغِ علوم (سی پی کے یو) اور اسکول برائے فنون و سماجی علوم کے زیر اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی پروفیسر زبیر مینائی، شعبۂ سوشل ورک، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی نے کہا کہ لوگوں کے خیالات، خواہشات، ضرورتوں کو آج ٹکنالوجی اساس کے بازار کے ذریعہ کنٹرول کیا جارہا ہے۔ سوشیل میڈیا اور ای کامرس ویب سائٹس کے ذریعہ یہ کام کاروباریوں کے لیے آسان ہوگیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک بھی سماجی سائنسداں اس جانب توجہ نہیں دے پائے ہیں۔وقت آگیا ہے کہ سماجی سائنسداں اس مسئلہ سے انسانی اقدارکو ہو رہے نقصان پر توجہ دیں۔ پروفیسر مینائی نے کہا کہ سماجی ریسرچ کا مقصد سماج کو آئینہ دکھانا ہے۔ لیکن جن پر تحقیق کی جائے انہیں اس بات کا پتہ نہ چلے تو اس ریسرچ کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر اسے کسی بڑے جریدے میں شائع بھی کرلیں تب بھی اگر مسائل کا حل نہ بتایا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔انہوں نے کہا کہ جو ریسرچ شائع نہ ہو وہ ایسا خزانہ ہے جو راہ خدا میں خرچ نہ ہوا ہو۔ پروفیسر ایوب خان، پرو وائس چانسلر نے صدارتی تقریر میں کہا کہ آج ماہرین نے بین مضامین تحقیق کی بات کی ہے۔ اس کی ضرورت یقینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ فینانشیل ماڈلنگ پر کافی کام کرچکے ہیں۔ اس پر کام کرنے کے لیے ریاضی کے ساتھ ساتھ معاشیات کی جانکاری بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف مضامین میں مہارت کے ذریعہ تحقیق کے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جس سے یقینی طور پر سماج کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ پروفیسر اروند انصاری، شعبۂ تعلیم نسواں، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی نے کہا کہ یقینا اردو ایک میٹھی زبان ہے۔ لیکن اسے تحقیقی زبان بھی بننا چاہیے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، رجسٹرار انچارج و کنوینر کانگریس نے کارروائی چلائی۔ڈاکٹر عابد معز، شریک کنوینر کانگریس، کنسلٹنٹ سی پی کے یو نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز جب وائس چانسلر بن کر اردو یونیورسٹی آئے تو انہوں نے اردو کو محض شعر و شاعری کی زبان سے آگے بڑھا کر علوم کی زبان بنانے کے لیے مرکز برائے فروغ علوم کا قیام عمل میں لایا اور انہیں اس کی ذمہ داری سونپی تاکہ مختلف سماجی اور سائنسی علوم کی کانگریسوں کے انعقاد کے ذریعہ سائنسی اور سماجی علوم کے ادب کو فروغ دیا جائے۔