آپ بس کردار ہیں اپنی حدیں پہچانیئے

   

پارلیمنٹ سیشن … سیاہ قوانین پر ہنگامہ ممکن
جامعہ ملیہ میں فائرنگ… احتجاجیوں کو دھمکانے کی کوشش
مساجدمیں خواتین … سپریم کورٹ میں نیا فتنہ

رشیدالدین
سنگین معاشی انحطاط اور مودی حکومت کے سیاہ قوانین کے خلاف ملک کے چپہ چپہ میں جاری احتجاج کے دوران پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا آغاز ہوچکا ہے ۔ معاشی انحطاط ہو یا پھر حکومت کے غیر دستوری فیصلے دونوں کا تعلق راست طور پر عوام سے ہے، لہذا ملک کی ایکتا ، سالمیت اور مذہبی رواداری کے تحفظ کیلئے عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہے کہ اگر سیاہ قوانین نافذ نہ ہوتے تو عوام حکومت کی معاشی پالیسیوں اور ناکامیوں کے خلاف میدان میں ہوتے۔ مودی حکومت نے عوام کو شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی ، این پی آر میں کچھ اس طرح الجھاکر رکھ دیا ، معیشت کے زوال پر حکومت سے سوال کرنے کی فرصت نہیں رہی۔ جب مذہب کے نام پر سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے اور نسل در نسل قیام کرنے والوں کی شہریت کو مشکوک کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر ہے کہ معاشی بدحالی ثانوی نوعیت اختیار کرلے گی ۔ نریندر مودی حکومت اپنی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہوگئی ۔ مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل پر حکومت سے سوال کرنے کے بجائے ہر کوئی اپنی شہریت ثابت کرنے کاغذات اکھٹا کرنے میں مصروف ہوچکا ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے انداز میں الجھا ہوا ہے اور ہر کسی کی زبان پر یہی جملہ ہے کہ سیاہ قوانین کا کیا اثر ہوگا۔ پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن ہنگامہ خیز ثابت ہوسکتاہے کیونکہ غیر بی جے پی تقریباً 16 ریاستوں کی حکومتوں نے CAA ، NRC اور NPR کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کیرالا ، پنجاب ، راجستھان اور مغربی بنگال کی اسمبلیوں میں سی اے اے کے خلاف قرارداد منظور کی گئی ۔ ریاستوں کی مخالفت ملک میں دستوری بحران پیدا کرسکتی ہے۔ لوک سبھا میں اگرچہ اپوزیشن ارکان کی تعداد کم ہے ، تاہم حکومت کی بعض حلیف جماعتوں کے مخالف سی اے اے اور این آر سی موقف کے سبب دونوں ایوانوں میں ہنگامہ آرائی کا امکان ہے ۔ اپوزیشن اور انصاف پسند حکومت کے حلیف مودی حکومت کو گھیر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے معاشی انحطاط پر مباحث پر زور دیا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ سیاہ قوانین موضوع بحث بنائے جائیں۔ معاشی انحطاط یوں تو گزشتہ پانچ چھ ماہ سے جاری ہے لیکن حکومت نے کبھی بھی اسے بحران تسلیم نہیں کیا ۔ اب جبکہ عوام کو سی اے اے اور این آر سی کے نام پر الجھا دیا گیا اور یہ معاملہ حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا تو اب حکومت کو معاشی انحطاط پر مباحث کا خیال آیا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اس قدر معاشی بحران کبھی نہیں تھا۔ شرح ترقی 5 فیصد سے گھٹ چکی ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ دور حکومت میں شرح ترقی 9 فیصد تھی۔ آخر کس صورت سے معاشی انحطاط پر بحث کی جائے گی ؟ حکومت سیاہ قوانین کے خلاف سیکولر اور انصاف پسند پارٹیوں کے احتجاج سے بچ نہیں پائے گی ۔ ملک بھر میں جاری عوامی احتجاج کے زیر اثر حکومت کو سیاہ قوانین سے دستبرداری یا پھر ترمیمات کا اعلان کرنا پڑے گا۔ اٹل موقف کی صورت میں دونوں ایوانوں کی کارروائی متاثر ہوگی اور کسی کام کے بغیر ہی سیشن گزر جائے گا ۔ بجٹ سیشن سے عین قبل آندھراپردیش میں برسر اقتدار وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے غیر معمولی جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی اے اے کے ساتھ NRC اور NPR مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ مرکز کے کل جماعتی اجلاس میں وائی ایس آر کانگریس نے مرکز کو متنازعہ فیصلوں سے دستبرداری کا مشورہ دیا ۔ یہ وہی پارٹی ہے جس نے پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی قانون کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ پارٹی کا الزام ہے کہ مودی حکومت نے جو قانون دکھایا وہ کچھ اور تھا لیکن عمل آوری کچھ اور قانون پر کی جارہی ہے۔ جو دکھایا گیا وہ عمل آوری تک تبدیل ہوگیا۔ سی اے اے کی تائید کرنے والی مزید دو پارٹیاں اپنا موقف سخت کرچکی ہے۔ اکالی دل اور جنتا دل یونائٹیڈ برسر اقتدار محاذ این ڈی اے کا حصہ ہے لیکن دونوں نے سیاہ قوانین کی مخالفت کی ہے۔ جگن موہن ریڈی کا موقف قابل ستائش اور دیگر ریاستوں بالخصوص تلنگانہ کیلئے قابل تقلید ہے۔ کے سی آر نے مسلمانوں کو خوش کرنے اور احتجاج کی شدت میں کمی کیلئے شہریت قانون کے خلاف اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کا اعلان کیا لیکن این آر سی اور این پی آر پر موقف واضح نہیں ہے ۔ ووٹ بینک کو پیش نظر رکھتے ہوئے کے سی آر بلدی انتخابات کے دوران اس بارے میں مہر بہ لب رہے۔ نتائج کے دن سی اے اے کے خلاف قرارداد کا چاکلیٹ مسلمانوں کو دے دیا گیا۔ شہریت قانون سے زیادہ خطرناک تو این آر سی اور این پی آر ہے۔ اس بارے میں کے سی آر کا رویہ ٹال مٹول کا ہے ۔ ویسے بھی نظم و نسق کی سطح پر این پی آر پر عمل آوری کے لئے عہدیداروں کو متحرک کیا جاچکا ہے ۔ جب تک این آر سی اور این پی آر کے خلاف اعلان نہیں کیا جاتا اس وقت تک مسلم ہمدردی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوں گے ۔ شہریت قانون کے خلاف قرارداد کیلئے اسمبلی کے بجٹ سیشن کا انتظار کیوں ؟ کے سی آر اگر واقعی مخالفت میں سنجیدہ ہیں تو ایک روزہ خصوصی اجلاس طلب کرتے ہوئے قرارداد منظور کریں۔ دوسری طرف مرکز نے یکم اپریل سے این پی آر پر عمل آوری کیلئے باقاعدہ اعلامیہ جاری کردیا۔ ریاستوں کیلئے خاص طور پر غیر بی جے پی حکومتوں کا امتحان ہے کہ آیا وہ موجودہ فارمیٹ میں این پی آر قبول کریں گے یا نہیں۔

دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا موقف کمزور ہے اور عام آدمی پارٹی کو عوام کی غیر معمولی تائید حاصل ہورہی ہے ۔ دوسری مرتبہ دہلی میں اقتدار سے محرومی کے اندیشے کے تحت بی جے پی نے مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت بی جے پی کے سرکردہ قائدین انتخابی مہم میں زہر اگل رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 5 قائدین کی انتخابی مہم پر پابندی عائد کردی ہے۔ بی جے پی کو شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ میں جاری خواتین کے احتجاج سے اصل تکلیف ہے اور وہ آنے والے دنوں میں احتجاج ختم کرانے کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ امیت شاہ نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بی جے پی کے نشان پر بٹن دبائیں اور جھٹکہ شاہین باغ کے احتجاجی محسوس کریں گے۔ ایک قائد نے بی جے پی برسر اقتدار آنے پر شاہین باغ کے احتجاجیوں کو مار مار کر بھگانے کا اعلان کیا ۔ دوسرے قائد نے بی جے پی برسر اقتدار آنے پر مساجد کو منہدم کرنے کا وعدہ کیا۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے انتخابی جلسہ میں ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘‘ کا نعرہ لگایا۔ شائد اسی کا اثر تھا کہ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ میں سنگھ پریوار کے ایجنٹ بندوق کے ساتھ پہنچ گئے۔ بی جے پی نے ایک تیر سے دو نشان کے تحت ایک طرف انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا تو دوسری طرف ریوالور کے ساتھ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کے احتجاجیوں کو دھمکانے کی کوشش کی۔ بی جے پی کو جان لینا چاہئے کہ شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے بکاؤ مال نہیں جس طرح مودی اور امیت شاہ کے جلسوں میں پیسہ لے کر شریک ہوتے ہیں۔ دھمکی تو کیا اگر طاقت کا استعمال بھی کیا جائے تو احتجاجی خوفزدہ نہیں ہوں گے ۔ جامعہ ملیہ میں پولیس کی موجودگی میں طلبہ پر فائرنگ کی گئی لیکن قانون کے محافظ تماش بین بنے رہے۔ پولیس احتجاجیوں پر لاٹھی چارج اور فائرنگ کیلئے تیار ہے لیکن وہ گولی چلانے والے پر قابو پانے تیار نہیں۔ شائد انوراگ ٹھاکر کے نعرہ سے متاثر ہوکر حملہ آور نے گولی چلائی ۔ اسے محض اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ 30 جنوری 1948 ء کو نتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی پر گولی چلائی تھی اور 30 جنوری 2020 ء کو گوپال نے جامعہ ملیہ کے طلبہ پر فائرنگ کی۔ اگر حملہ آور ٹوپی ، داڑھی یا کرتا پائجامہ میں ہوتا تو شائد ہی وہ بچ پاتا بلکہ پولیس اسے گولی کا نشانہ بنادیتی۔ اس پر نہ صرف دہشت گردی کا لیبل لگادیا جاتا بلکہ کئی دہشت گرد تنظیموں اور واقعات سے تعلق جوڑ دیا جاتا۔ گودی میڈیا کے اینکر گلا پھاڑ پھاڑ کر فرضی کہانیاں بیان کرتے لیکن چونکہ حملہ آور گوڈسے سے متاثر گوپال ہے لہذا اسے نابالغ کہہ کر بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ملک دشمنی اور دہشت گردی سے جوڑدیا جارہا ہے ۔ وزیراعظم نے یہاں تک کہہ دیا کہ لباس سے فسادیوں کی شناخت کی جاسکتی ہے ۔ یہ گھٹیا ذہنیت اسی شخص کی ہوسکتی ہے جس کے ذہن میں ہمیشہ ہندو مسلم چل رہا ہو۔ وزیراعظم کے عہدہ پر فائز شخص کی سوچ ملک کیلئے خطرہ ہے۔ ہندوستان میں تمام مذاہب کے ماننے والے باہم شیر و شکر کچھ اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں جیسے ان میں خون کا رشتہ ہو۔ ہندو اور مسلمان کا رشتہ دراصل آتما کی طرح ہے جس کی کوئی شکل نہیں ہوتی۔ حق مانگنے اور سچائی کی بات کو بغاوت تصور کرنا حکمرانوں کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت کے ڈر اور خوف کو اگر کسی نے بھگایا ہے تو وہ شاہین باغ کے خواتین ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ملک بھر میں جس طرح خواتین حکومت کے خلاف سڑکوں پر آچکی ہیں ، ممکن ہے کہ اصلی اچھے دن اب ضرور آئیں گے ۔ سپریم کورٹ میں مساجد میں خواتین کے داخلہ پر سماعت جاری ہے ۔ طلاق ثلاثہ کی طرح شریعت پر ایک اور وار کرنے کی تیاری ہے۔ معاملہ سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلہ کا تھا لیکن عدالت نے مساجد میں خواتین کے داخلہ کو مقدمہ سے جوڑ دیا۔ عدلیہ کا احترام اس کی آزادی کی وجہ سے ہے ، اگر احترام متاثر ہورہا ہے تو سمجھ جائیں کہ عدلیہ کی غیر جانبداری برقرار نہیں رہے گی۔ حالیہ عرصہ میں عدلیہ کے رول پر عوام میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ ہر شہری کو دستور نے اپنے مذہب پر چلنے کا حق دیا ہے اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حق کا احترام کرے۔ مسلمان ، سکھ ہو یا پارسی کسی کے مذہبی امور میں مداخلت کا عدلیہ کو حق نہیں۔ مقننہ ، عاملہ اور عدلیہ تینوں اپنی حد میں رہیں تو ملک میں خوشحالی رہے گی۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کچھ اس طرح باخبر کیا ہے ؎
آپ بس کردار ہیں اپنی حدیں پہچانیئے
ورنہ پھر اک دن کہانی سے نکالے جائیں گے