اپریل 2020 مردم شماری کو این پی آر سے غیر مربوط کرنے کا مطالبہ

,

   

عاملانہ احکام کی اجرائی کے بغیر قانون ساز اسمبلیوں میں قراردادوں کی منظوری محض لفظی بیان بازی کے سوا کچھ نہیں، 29 ر یاستوں کے چیف منسٹرس کو خاتون جہد کاروں کا مکتوب

حیدرآباد ۔ 17 ۔ مارچ (سیاست نیوز) ملک بھر کی 1000 ممتاز و نمائندہ خواتین نے نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) پر عمل آوری کی سخت مخالفت کرتے ہوئے29 ریاستوں کے چیف منسٹروں کے نام اپنے مکتوب میں کہا ہے کہ این پی آر ، خواتین کیلئے ایک کھلا خطرہ ہے ، چنانچہ این پی آر کو گھر گھر کی جانے والی مردم شماری سے غیر مربوط کردیا جانا چاہئے ۔ یکم اپریل 2020 سے شروع ہونے والی ہندوستانی مردم شماری 2021 کے موقع پر قومی آبادیاتی رجسٹر (این پی آر) ترتیب دینے کے منصوبہ کے پیش نظر ملک بھر کی متعدد خاتون جہد کاروں جن میں اینی راجہ اور فرح نقوی ، انجلی بھردواج ، وانی سبرامنین ، میرا سنگھ مترا ، مریم دھاولے ، پونم کوشک اور دوسروں نے دہلی پریس کلب میں ملک بھر کی 29 ریاستوں کے چیف منسٹروں کے نام اپنے مکتوب کی نقل جاری کرتے ہوئے میڈیا نمائندوں سے کہا کہ آج صبح ملک کے چیف منسٹروں کے نام یہ مکتوب روانہ کئے جا چکے ہیں جن پر ایک ہزار سے زائد سرکردہ خواتین کی دستخطیں موجود ہیں۔ دستخط کنندگان میں خاتون جہد کار ، مصنفین ، ماہرین تعلیم ، وکلاء ، ڈاکٹرس ، کسان ، پیشہ ور ماہرین ، آنگن واڑی ورکرس اور دیگر تمام شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں۔ اس مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم بحیثیت ہندوستانی خواتین آپ کو یہ مکتوب روانہ کر رہی ہے جو این پی آر کی مخالفت میں ہے، خواتین ہندوستان کی آبادی کا 50 فیصد حصہ ہے اور یہ مخالفت ہماری اپنی زندگیوں کو درپیش مختلف مسائل و مصائب کے واضح ثبوت پر مبنی ہے‘‘۔ اینی راجہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ خواتین کے پاس اپنے نام پر کوئی جائیدادیں نہیں رہتیں، ان کی خواندگی کی شرح بھی بہت کم ہے ، وہ اپنی شادی کے بعد ماں باپ کا گھر چھوڑ دیتی ہے چنانچہ ان کے پاس کوئی دستاویز بھی موجود نہیں رہتی ۔ آسام میں کئے گئے این آر سی سے خارج شدہ 19 لاکھ افراد میں خواتین کی سب سے بڑی اکثریت ہے اور یہ ایک حقیقت ہے ‘‘۔ ملک کی 29 ریاستوں کے چیف منسٹر جن میں تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ، آندھراپردیش کے چیف منسٹر وائی ایس جگن موہن ریڈی ، آسام کے چیف منسٹر سربانندا سونووال ، بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار ، چھتیس گڑھ کے بھوپیش بھاگیل ، دہلی کے اروند کجریوال ، گوا کے پرمود ساونت ،

گجرات کے وجئے روپانی ، ہریانہ کے منوہر لال کتھر ، جھارکھنڈ کے ہیمنت سورین ، کرناٹک کے بی ایس یدی یورپا، کیرالا کے پینارائی وجین، مدھیہ پردیش کے کمل ناتھ ، مہاراشٹرا کے ادھو ٹھاکرے ، منی پور کے نونگ تھوم بام بیرن سنگھ ، میگھالیہ کے کونراڈ کونگ کل سنگما ، میزورم کے پی زورم تھنگا، ناگالینڈ کے نیپیو ریو ، اڈیشہ کے نوین پٹنائک، پنجاب کے کیپٹن امریندر سنگھ ، راجستھان اشوک گہلوٹ ، سکم پریم سنگھ تمانگ، ٹاملناڈو کے ایڈاپٹی پلانی سامی ، تریپورہ کے وپلپ کمار دیب ، اترپردیش کے یوگی ادتیہ ناتھ ، اتراکھنڈ کے تریویندرا سنگھ راوت اور مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی بھی شامل ہیں، سے اینی راجہ نے درخواست کی کہ این پی آر کو روکنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کریں۔ فرح نقوی نے مزید کہا کہ ’’یہ تمام خواتین بلا امتیاز مذہب و ذات پات جدید این پی آر ، این آر آئی سی ، شہریت طریقہ کار سے براہ راست متاثر ہوں گے اور ہماری شہریت مکمل طور پر پریشان کن انداز میں ظالمانہ امتحان و آزمائش کی شکار ہوجائے گی‘‘۔ آدیواسی برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین و بچوں کے علاوہ دلت، مسلم ، ایک مقام سے دوسرے مقام کو مسلسل منتقل ہونے والی مزدور خواتین ، چھوٹے کسان خواتین ، بے زمین ، مزدور ، گھریلو خاتون ملازم، سیکس ورکس اور زنخوں سے بھی اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے اصرار کیا جائے گا ۔ چنانچہ ان تمام کو شہریت اور شہری حقوق سے محرومی کے سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔ وہ اپنے حق رائے دہی سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔ انجلی بھردواج نے کہا کہ قانون شہریت کی دفعہ 14-A اور اس سے متعلقہ قواعد 2003 میں واضح طور پر این پی آر ڈیٹا کو ہندوستانی شہریوں کے قومی رجسٹر کی ترتیب کے لئے استعمال کرنے کی واضح گنجائش فراہم کی گئی ہے اور مقامی رجسٹرارس کو بعض افراد کو ’مشتبہ شہری‘ کے طور پر انگریزی حرف “D” لکھنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ اگرچہ وزیر داخلہ نے 12 مارچ کو پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ کسی کے نام کے ساتھ بھی “Doubtful” نہیں لکھا جائے گا لیکن ان کے بیان کی اس وقت تک کوئی قانونی حیثیت نہیں رہتی جب تک متعلقہ قواعد اور دفعات میں رسمی ترمیم نہیں کی جاتی۔ خاتون جہد کاروں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مردم شماری کے عمل کے تقدس کی حفاظت کے لئے ہندوستان بھر کی خواتین ہر ریاست کے چیف منسٹر سے درخواست کرتی ہے کہ این پی آر کو مردم شماری سے غیر مربوط کیا جائے اور اندراج کنندگان کو صرف مردم شماری کا کام کرنے کیلئے پابند بنایا جائے ۔ کئی ریاستیں اپنی قانون ساز اسمبلیوں میں قرارداد منظور کرتے ہوئے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرچکی ہیں لیکن یکم اپریل سے شروع ہونے والی مردم شماری کو این پی آر سے غیر مربوط کرنے کیلئے جب تک واضح احکامات جاری نہیں کئے جاتے ، یہ قراردادیں محض لفظی بیان بازی تک محدود رہیں گے۔ ہر ریاست کو چاہئے کہ مردم شماری کو این پی آر سے غیر مربوط کرنے کیلئے فی الفور عاملانہ احکام جاری کریں۔ کیرالا اور مغربی بنگال پہلے ہی عاملانہ احکام جاری کرچکے ہیں ۔ راجستھان اور جھارکھنڈ نے یکم اپریل 2020 ء سے صرف مردم شماری کے آغاز کے احکام جاری کئے ہیں۔ خواتین نے ان ریاستوں کے اقدامات کا خیرمقدم کیا ہے ۔