اڈانی پر مودی حکومت مہربان

   

ہند۔ پاک سرحد پر 445 مربع کلومیٹر اراضی حوالے

روی نائر
وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں اکثر اپوزیشن جماعتیں یہ الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ گجراتی صنعت کار اور اڈانی گروپ کے صدرنشین گوتم اڈانی کی بہت زیادہ تائید و حمایت کرتے ہیں۔ مودی جی اور امیت شاہ کی جوڑی کے بارے میں ’’ہم دو ہمارے دو ‘‘ جیسا ریمارک بھی کیا جاتا ہے ۔ اس معاملہ میں پارلیمنٹ میں کئی مرتبہ ہنگامہ بھی ہوا ( یہاں تک کہ پچھلی پارلیمنٹ میں کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی رکنیت ختم کی گئی ۔ اسی طرح اڈانی معاملہ پارلیمنٹ میں بار بار اُٹھانا ٹی ایم سی رکن میوہ موئترا کو بھی مہنگا پڑا اور اُنھیں پچھلی پارلیمنٹ میں ہی نااہل قرار دیا گیا ) بہرحال جہاں تک مودی کی زیرقیادت بی جے پی کی مرکزی اور بی جے پی زیرقیادت ریاستی حکومتوں کی جانب سے اڈانی کی حد سے زیادہ تائید و حمایت کا سوال ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ حالیہ عرصہ کے دوران اڈوانی گروپ کو مودی حکومت نے برقی پراجکٹس کیلئے تمام اُصول و قواعد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یا ان میں نرمی اور رعایت دیتے ہوئے بین الاقوامی سرحد پر اس قدر زیادہ سرکاری اراضی فراہم کی جو کم از کم سنگاپور جیسے ملک کے رقبہ کے برابر اور اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ اس بارے میں اب یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ آخر کیسے گوتم اڈانی نے ہند ۔ پاک سرحد پر برقی پراجکٹ حاصل کیا اور اس کیلئے کس طرح دفاعی قوانین میں نرمی کی گئی ۔ 21اپریل 2023 ء کو وزارت دفاع کے حکام نے دہلی میں ایک خصوصی اجلاس طلب کیا جس میں ہندوستانی فوج ، وزارت قابل تجدید توانائی اور حکومت گجرات کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی ۔ اس میٹنگ کا مقصد ان دفاعی پابندیوں پر بات چیت کرنا تھا جو ریاست گجرات کے علاقہ کچ میں سولار انرجی کارپوریشن آف انڈیا کے پراجکٹ کی راہ میں حائل تھیں ۔ سولار انرجی کارپوریشن آف انڈیا SECI کو حکومت گجرات نے قابل تجدید توانائی پارک کے ایک حصہ کے طورپر 23000 ہیکٹر اراضی الاٹ کی ۔ اس پارک کے بارے میں حکومت گجرات کا دعویٰ تھا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا پارک ہوگا جس کا رقبہ تقریباً سنگاپور جتنا وسیع ہوگا لیکن سولار انرجی کارپوریشن آف انڈیا کو جو اراضی الاٹ کی گئی اس میں ایک بڑی رکاوٹ تھی ، وہ اراضی پاکستان سے متصل ہندوستانی سرحد کے بالکل قریب تھی ۔ جیسا کہ فرم نے حکومت گجرات کو موسومہ اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہیکہ موجودہ دفاعی پابندیوں کا مطلب ہے کہ اس اراضی پر صرف Wind Turbines پون چکیاں نصب کی جاسکتی ہے سولار پیانلس نہیں ۔ اس شرط نے مذکورہ پراجکٹ کو اقتصادی طورپر ناقابل عمل بنادیا ۔ اپریل میں ہوئے اجلاس جس میں سوالار انرجی کارپوریشن آف انڈیا کے عہدیدار بھی شریک تھے وزارت دفاع نے ان پابندیوں میں نرمی کرنے سے اتفاق کیا جس سے ہند ۔ پاک سرحد سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ونڈ ٹربائنس ( پن چکی ) اور 2 کیلومیٹر کے فاصلہ پر سولار پیانلس نصب کرنے کی اجازت دی گئی ۔ سولار انرجی کارپوریشن آف انڈیا کی تشویش و خدشات کو دور کرنے کے باوجود تین ماہ بعد فرم نے وزیر قابل تجدید توانائی کی ہدایات پر اراضی حوالہ کردی جس پر حکومت گجرات نے اس اراضی کو اڈانی گروپ کیلئے مختص کرتے ہوئے عوامی شعبہ کی فرمس کیلئے محفوظ کرنے سے متعلق اپنے سابقہ فیصلہ کو تبدیل کردیا ۔
اڈانی گروپ کے پاس اب انرجی پارک میں 445 مربع کیلومیٹر زمین ہے جو سولار انرجی کارپوریشن آف انڈیا کے بعد دی گئی سب سے زیادہ اراضی ہے اور اب تمام ڈیولپرس کے قبضہ میں جو مجموعی اراضی ہے اس سے کہیں زیادہ اراضی اڈانی گروپ کے پاس ہے تاہم دفاعی شعبہ کے ماہرین کا استدلال ہے کہ اس علاقہ میں سرحدی قوانین میں نرمی جس سے اڈانی گروپ فائدہ اُٹھارہا ہے بالکل غلط ہے ۔ اس ضمن میں ایک سابق فوجی سربراہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سرحد کے اس قدر قریب کسی بھی بڑے انفراسٹرکچر پر سرمایہ مشغول کرنا ان کیلئے خاص طورپر نادانی ہے ۔ دوسری طرف دفاعی تجزیہ نگار اجئے شکلا کا مشاہدہ کچھ اس طرح رہا : ’’بارڈر ڈیفنس ریگولیشنز اور پروٹوکول کو تبدیل کرنے ، تجارتی استحصال کیلئے بڑی سرحدی اراضی کو ددستیاب کرنے سے حکومت تجارتی مفادات کیلئے وسیع دفاعی ذمہ داریاں اُٹھاتی دکھائی دے گی ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات یعنی سرحد کے بالکل قریب اراضی الاٹ کیا جانا خود کو کسی بھی کارپوریٹ ادارے کی طرفداری کے الزامات کے لئے بھی کھلا رکھے گا جو اس اقدام سے براہ راست فائدہ اُٹھاتا ہے ۔
ایک سابق اسٹرائیک کارپس کمانڈر جو کچ کے علاقہ اور بین الاقوامی سرحد کے قریب میں جارحانہ کارروائیوں کے ذمہ دار تھے اس بارے میں کہا کہ انرجی پارک قومی سلامتی کی قیمت پر آئے گا ۔ کمانڈر جو لیفٹننٹ جنرل کی حیثیت سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے تھے کہتے ہیں کہ اس علاقہ میں سرحدی قواعد میں نرمی کا مطلب دراصل حصول منافع کیلئے کارپوریٹ اداروں کے لالچ کی تکمیل کیلئے ہمارے علاقہ کے دفاعی پیشہ ورانہ تقاضوں سے سمجھوتہ کرنا ہے اور ایسا ہی کیا گیا ہے ۔
ہم نے اس اپنی رپورٹ کی تیاری کے دوران اڈانی گروپ ، حکومت گجرات ، وزارت قابل تجدید توانائی اور سولار انرجی کارپوریشن آف انڈیا کا ردعمل بھی جاننا چاہا لیکن مذـکورہ حقائق اور ان تمام پر کی جارہی تنقیدوں کے بارے میں کسی نے بھی اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا ۔ اگر ان کا ردعمل سامنا آتا ہے تو اسٹوری کو یقینا اپ ڈیٹ کیا جائے گا ۔ ہم نے بطور خاص اڈانی گروپ سے ربط پیدا کیا لیکن وہاں سے کوئی ردعمل نہیں حاصل ہوسکا لیکن گارجین کو دیئے گئے اپنے ایک بیان میں اڈانی گروپ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے تمام قوانین و ضوابط کے تابع ہیں اور متعلقہ حکام و ذمہ دار عہدیداروں کی ضروری منظوری بھی حاصل کی ۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ منصوبے کیلئے زمین کی تقسیم پالیسی کے رہنمایانہ خطوط پر عمل کرتی ہے اور یہ ہندوستان کی سب سے بڑی قابل تجدید توانائی کمپنی اڈانی گرین انرجی کی اسناد اور کارکردگی پر مبنی ہے ۔
اراضی کا الاٹمنٹ : 25 جنوری 2019 ء کو حکومت گجرات نے قابل تجدید توانائی پارک کیلئے 74400 ہیکڑ اراضی (تقریباً 724 مربع کیلومیٹر سرکاری اراضی ‘Govt Waste Land’ )مختص کرنے کا اعلان کیا جو کچ علاقہ رن میں پن چکی اور شمسی توانائی کے ہائبرڈ پراجکٹس پر مشتمل ہوگا ۔ اس کے دو سال بعد ڈسمبر 2020 ء میں وزیراعظم نریندر مودی نے پارک کا افتتاح انجام دیا ۔ اس پارک کو کھاوڈا سولار پارک کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ پارک ضلع کچ میں واقع ہے جو شمال میں پاکستانی سرحد سے متصل ہے ۔
اس وقت تک پارک میں اراضیات کے حصے دو مرکزی اور دو گجراتی پبلک سیکٹر یونٹس اور دو نجی کمپبنیوں کو مختص کئے گئے ۔ واضح رہے کہ سولار انرجی کارپوریشن آف انڈیا کو زمین کا سب سے بڑا حصہ مختص کیا گیا جو 23 ہزار ہیکٹر اراضی پر محیط ہے ۔ بعد میں 23 اگسٹ 2023ء کو ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت چیف منسٹر گجرات نے کی ۔ اس میٹنگس کے ریکارڈ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جو اراضی مختص کی گئی وہ بین الاقوامی سرحد سے ایک کیلومیٹر اور 6 کیلومیٹر فاصلہ کے درمیان ہے اور اسے سولار انرجی کارپوریشن آف انڈیا کے Wind Turbine پراجکٹ کیلئے بطور خاص محفوظ رکھا گیا ہے ۔
SECI ایک سرکاری ادارہ ہے اور مرکزی وزارت دفاع نے مذکورہ پراجکٹ کیلئے منظوری دی ہے ۔ اگرچہ مابقی پارک Hybrid پراجکٹس پر مشتمل ہوگا اور جو ونڈ اور سولار دونوں قسم کی انرجی پیدا کرے گا حالانکہ پہلے اسے Wind Park کی حیثیت سے منظوری دی گئی جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ 3000 میگاواٹس برقی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے ۔ ایک اور اہم یہ ہیکہ SECI کو زمین کا ایک وسیع تر حصہ الاٹ کیا گیا حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُصول و قواعد کے مطابق کسی بھی ڈیولپر کو 20 ہزار ہیکٹرس سے زیادہ اراضی نہیں دی جانی تھی ۔ دوسری طرف اڈانی گرین انرجی نے 9500 میگا یونٹس برقی تیار کرنے کی صلاحیت کے حامل ایک پلانٹ کیلئے زمین کا دوسرا بڑا حصہ حاصل کیا جو 19000 ہیکٹر اراضی پر محیط ہے ۔ ( بشکریہ اسکرال )